سچ خبریں: عراقی پارلیمنٹ کے سربراہ سے محمد الحلبوسی کی برطرفی اس ملک کی سپریم کورٹ کا حتمی اور ناقابل اپیل فیصلہ ہے جو عراق کے لیے ایک نیا سیاسی چیلنج پیدا کر سکتا ہے۔
عراق کی سپریم کورٹ نے اس ملک کی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد الحلبوسی کو برطرف کردیا، اس تجزیے میں عراق کی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے اسباب اور نتائج کا جائزہ لیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران مخالف امریکی سینیٹر کی عراقی حکام سے ملاقات
صوبہ الانبار کے سابق گورنر اور التقدم تحریک کے سربراہ محمد الحلبوسی کو 2018 میں عراقی پارلیمنٹ کے اسپیکر کے طور پر منتخب کیا گیا ،حلبوسی، جن کی عمر اس وقت 37 سال تھی، عراق کی تاریخ میں پارلیمنٹ کے سب سے کم عمر اسپیکر تھے۔
2022 میں محمد الحلبوسی دوسری بار عراقی پارلیمنٹ کے اسپیکر منتخب ہوئے،الحلبوسی کا انتخاب ایسے حالات میں کیا گیا جب عراق کو شیعہ گروہوں کے درمیان تنازع کی وجہ سے سیاسی بحران کا سامنا تھا،اب دوسری مدت صدارت کے تقریباً دو سال ہو چکے ہیں اور محمد الحلبوسی کو عراقی پارلیمنٹ کے اسپیکر بنے ہوئے تقریباً 6 سال ہو چکے ہیں، جب سپریم کورٹ نے ان کی برطرفی کا حکم دیا، الحلبوسی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو عجیب قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ آئین کی خلاف ورزی اور قومی استحکام کو نقصان پہنچاتا ہے تاہم وفاقی سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہے اور اس کے خلاف اپیل نہیں کی جا سکتی۔
الحلبوسی کی برطرفی کی وجوہات
الحلبوسی اس وقت عراق میں سب سے نمایاں سنی سیاست دان ہیں،وہ عراق کے سیاسی اصولوں اور حالات سے باخبر ہے،تاہم جب عراق پرامن دنوں سے گزر رہا ہے تو الحلبوسی کو عراقی پارلیمنٹ کے سربراہ کے عہدے سے کیوں ہٹایا گیا؟ اس حوالے سے کئی مسائل اٹھائے گئے ہیں۔
پہلا مسئلہ یہ ہے کہ محمد الحلبوسی نے صیہونی حکومت اور اس حکومت کی شہریت رکھنے والی کمپنیوں کے ساتھ کسی قسم کے تعاون کو جرم قرار دینے کے حوالے سے عراقی پارلیمنٹ کے منظور کردہ قانون کی خلاف ورزی کی ہے،صیہونیوں کے ساتھ تعلقات کے جرم ہونے کے قانون کے مطابق کسی بھی عراقی سیاست دان کو صہیونی شیئر ہولڈرز والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ کاروباری معاہدوں پر دستخط کرنے کا حق نہیں ہے نیز کسی فریق یا عہدیدار کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ ان کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کرے جن کا کام ملکوں اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانا ہے۔
عراقی پارلیمنٹ کے آزاد نمائندوں میں سے ایک باسم درخشان جنہوں نے الحلبوسی پر مقدمہ دائر کیا تھا، نے عدالتی دستاویزات دکھائیں جو پارلیمنٹ کے معزول اسپیکر کی طرف سے قانون کی خلاف ورزی کو ظاہر کرتی ہیں۔ محمد الحلبوسی نے التقدم پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے ایک غیر ملکی کمپنی کے ساتھ معاہدہ کیا جس نے صیہونی حکومت اور متعدد ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے میں کردار ادا کیا تھا۔
اس کمپنی کا سب سے بڑے مشیر صیہونی حکومت کے سابق وزیراعظم ایہود باراک ہیں،درحقیقت عدالت کی جانب سے الحلبوسی کو برطرف کرنے کے فیصلے کی بنیادی وجہ صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے جرم کو بیان کرنے قانون کی خلاف ورزی تھی،عراقی پارلیمنٹ کا یہ فیصلہ جب کہ صیہونی حکومت 40 دنوں سے زائد عرصے سے غزہ میں نسل کشی کی مرتکب ہو رہی ہے، فلسطین کی عملی حمایت کی ایک شکل بھی ہو سکتی ہے۔
ایک اور وجہ محمد الحلبوسی کی جانب سے اپنے عہدے کے غلط استعمال سے متعلق ہے، کہا جاتا ہے کہ لیث الدلیمی کے ساتھ ان کے اختلافات کی وجہ سے انہوں نے اس نمائندے کے استعفیٰ پر مبنی ایک خط تیار کیا جس پر الدلیمی نے عراق کی سپریم کورٹ میں شکایت کی ،الدلیمی محمد الحلبوسی کی قیادت میں کام کرنے والی التقدم پارٹی کے رکن تھے، جنہوں نے اس پارٹی سے استعفیٰ دے دیا،تاہم، محمد الحلبوسی نے ان کے خلاف جعلی خط تیار کیا جس میں کہا گیا کہ ان کا استعفیٰ نہ صرف پارلیمنٹ میں التقدم دھڑے سے ہے بلکہ پارلیمنٹ کی نمائندگی سے بھی ہے،چنانچہ الحلبوسی نے پارلیمنٹ کے اسپیکر کی حیثیت سے لیث الدلیمی کے استعفیٰ کو قبول کرنے کا باضابطہ اعلان کیا اور ان کی جگہ لینے کا عمل شروع کیا۔ عراقی انتخابی قانون کے مطابق اگر پارلیمنٹ کا کوئی رکن استعفیٰ دے دیتا ہے تو اس کی نشست اسی حلقے میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والے امیدوار کو دی جاتی ہے۔
اس کے باوجود لیث الدلیمی نے اعلان کیا کہ انہوں نے کبھی بھی پارلیمنٹ سے استعفیٰ نہیں دیا اور ان سے منسوب استعفیٰ نامہ الحلبوسی کی طرف سے جعلی تھا، اس تناظر میں انہوں نے سپریم کورٹ سے شکایت کی،یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عراقی پارلیمنٹ کے معزول سربراہ اور ان کی زیر قیادت پارٹی پر بدعنوانی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں اور یہ معاملہ صوبہ الانبار میں ان کی مخالفت میں اضافے کا باعث بنا ہے جہاں سے الحلبوسی عراقی پارلیمنٹ میں داخل ہوئے تھے۔
الحلبوسی کو عراقی پارلیمنٹ سے ہٹانے کے نتائج
عراق کے اقتداری ڈھانچے میں صدارت کا انتخاب کردوں میں سے ہوتا ہے، پارلیمنٹ کے چیئرمین کا انتخاب سنیوں میں سے ہوتا ہے اور وزیراعظم کا انتخاب بھی اس ملک کے شیعوں میں سے ہوتا ہے،محمد الحلبوسی پارلیمنٹ کی صدارت کے لیے عراقی سنی امیدوار تھے،ان کی برطرفی کے بعد پارلیمنٹ کے معزول شیعہ اسپیکر کے پہلے نائب محسن المندلاوی ممکنہ طور پر نئے اسپیکر کے انتخاب تک یہ ذمہ داری سنبھال لیں گے۔
دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ محسن المندلوای چونکہ شیعہ ہیں اس لیے وہ زیادہ عرصے تک عراقی پارلیمنٹ کے سربراہ نہیں رہ سکتے،یہ ایک اہم مسئلہ ہے کہ پارلیمنٹ کے سربراہ کے لیے سنی دھارے ہی نامزد کریں گے اور اس سے سنی دھارے کے اندر مقابلہ ہو سکتا ہے ، تاہم ابھی تک واضح نہیں ہے کہ پارلیمنٹ کی سربراہی کے لیے امیدوار مطلوبہ ووٹ حاصل کر سکے گا یا نہیں جبکہ اس کے ساتھ ساتھ سنی سیاسی گروپوں کے درمیان اختلافات اور نئے صدر کے تعارف کو طول دینے کا بھی امکان ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ الحلبوسی کی برطرفی سے پارلیمنٹ کے اجلاس اور عراقی حکومت کے اجلاس دونوں متاثر ہوں گے اس لیے التقدم پارٹی کے رہنماؤں اور نمائندوں نے ایک اجلاس منعقد کیا اور الحلبوسی کی برطرفی کا فیصلہ جاری کرنے کے بعد عراقی حکومت کے اجلاسوں کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔
التقدم پارٹی کے رہنماؤں نے وفاقی حکومت میں اپنے تین نمائندوں کو مستعفی کرنے کا فیصلہ کیا،عراق کے ثقافت، منصوبہ بندی اور صنعت کے وزراء، جو التقدم پارٹی کے رکن ہیں، نے الحلبوسی کو نشانہ بنانےکے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنے استعفے پیش کر دیے،التقدم پارٹی کے فیصلے کے مطابق عراقی پارلیمنٹ میں اس جماعت کے نمائندے بھی پارلیمنٹ کے تمام اجلاسوں کا بائیکاٹ کریں گے۔
مزید پڑھیں: عراق کا استحکام امریکہ کی ترجیح نہیں ہے: حلبوسی
صدر تحریک کے بعد التقدم پارٹی نے اکتوبر 2021 کے انتخابات میں 39 نشستوں کے ساتھ عراقی پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں اور تحریک صدر کے نمائندوں کے پارلیمنٹ سے مستعفی ہونے کے بعد، اس پارٹی کے پاس اب سب سے زیادہ نشستیں ہیں لہٰذا حکومت اور پارلیمنٹ کے سرکردہ ارکان کا استعفیٰ عراق میں سیاسی چیلنجوں کے ایک نئے دور کا باعث بن سکتا ہے۔
نتیجہ
عراقی پارلیمنٹ کے سربراہ محمد الحلبوسی کی برطرفی اس ملک کی سپریم کورٹ کا حتمی اور ناقابل اپیل فیصلہ ہے،التقدم پارٹی کے ارکان کا ردعمل، جنہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں اس جماعت کے 39 ارکان اور حکومت میں اس کے تین وزراء اپنے عہدوں سے مستعفی ہو جائیں گے، عراق کے لیے ایک نیا سیاسی چیلنج پیدا کر سکتا ہے،ساتھ ہی، الحلبوسی کی برطرفی سے نئے اسپیکر کو متعارف کرانے کے لیے سنی گروہوں میں مسابقت ہو سکتی ہے۔