سچ خبریں:متحدہ عرب امارات ، بحرین ، سوڈان اور مراکش صیہونیوں کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لانے کے معاہدوں پر دستخط کرنے کے ایک سال سے بھی کم عرصے میں یروشلم میں قابض حکومت پر تنقید کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
ٹائمز آف اسرائیل کی رپورٹ کے مطابق صیہونیوں اور فلسطینیوں کے مابین تشدد کے حالیہ اضافے نےان عرب ریاستوں میں شکوک و شبہات پیدا کردیے ہیں جنہوں نے صہیونی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لائے ہیں ،واضح رہے کہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات ، بحرین ، سوڈان اور مراکش کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدوں پر دستخط کے ایک سال سے بھی کم عرصے میں یہ عرب ممالک اپنی پالیسی کو تبدیل کرنے اور صہیونی حکومت کے تشدد پر تنقید کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
اس سلسلہ میں ایک سیاسی تجزیہ کار الہام فخرو نے اے ایف پی کو بتایاکہ یہ بیانات اور تنقیدیں بنیادی طور پر ظاہری شکل کو برقرار رکھنے اوران ریاستوں کے اندر فلسطینیوں کی حمایت کرنے والے نیز عرب خطوں کو پرسکون کرنے کے لئے کی گئی ہیں، قابل ذکر ہے کہ بحرین اور متحدہ عرب امارات میں فلسطینیوں کی حمایت میں روزانہ مظاہرے ہوئے ہیںاور سول سوسائٹی کے کارکنوں نے صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ کیا ہے،درایں اثنا یورپی یونین کی خارجہ تعلقات کی کونسل کے تجزیہ کار ہیو لوٹ نے اس بحران کو متحدہ عرب امارات کا پہلا اصلی امتحان قرار دیا جو برسوں سے اسرائیل کے ساتھ خفیہ طور پر تعلقات کو مستحکم کررہا ہے ،انھوں نے کہا کہ کیا متحدہ عرب امارات فلسطینیوں کی خاطر صیہونی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کو خطرے میں ڈال سکتا ہے؟ لیکن لگتا ہے ایسا نہیں ہوگا کیونکہ یہ معاہدہ امریکہ کے ساتھ ٹیکنالوجی کی شراکت اور فوجی ہارڈویئر تک رسائی کا باعث بنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیتن یاہو کے خیال میں ابرہام معاہدہ عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی وجہ سے فلسطینیوں کو مکمل طور پر بے دخل کرسکتا ہے،یادرہے کہ گذشتہ ستمبر میں ابرہام معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد سے رائے عامہ سعودی عرب کی طرف مبذول ہوگئی ہےتاہم سعودی حکام کا دعوی ہے کہ وہ اس وقت تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کومعمول پر لانے کے کسی بھی معاہدے کو مسترد کرتے رہیں گے جب تک فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہوتا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ اگرچہ متحدہ عرب امارات نے صہیونی حکومت کے حالیہ جرائم پر تنقید کو نظرانداز کیاہے تاہم صہیونی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لانے والے دوسرے عرب ممالک کی صورتحال فلسطین کی حمایت میں سول سوسائٹی کی سرگرمی کی وجہ سے زیادہ پیچیدہ ہے۔