سچ خبریں: مشہور صیہونی میڈیا کا کہنا ہے کہ صیہونی حکومت کو جن پیچیدہ بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اس کی کابینہ کو تباہی کے دہانے پر دھکیل دیا ہے۔
اسرائیلی ٹی وی چینل 12 نے اپنی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک کالم میں نیتن یاہو پر جھوٹ بولنے اور غزہ کی پٹی کی ناکامی اور مختلف تنازعات پیدا کر کے اسرائیلی حکومت کی سلامتی کو شدید نقصان پہنچانے کا الزام لگایا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: طوفان الاقصی نے نیتن یاہو کے ساتھ کیا کیا؟
معروف قلمکار یارون ابراہام نے لکھا ہے کہ صیہونی وزیر اعظم خود جانتے ہیں کہ رفح تک پہنچنے میں انہوں نے اپنے وعدے کے مطابق ممکنہ غلطیوں کا ارتکاب کیا ہے، آج نیتن یاہو ایک ایسا کردار بن چکے ہیں جو پناہ لینے کی جگہ تلاش کر رہے ہیں، وہ مختلف جال اور مخمصوں میں ہیں جنہوں نے انہیں چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے، وہ پھنس چکے ہیں، وہ اس قدر مبہم بات کرتے ہیں کہ ان کی کابینہ کے ارکان کو بھی معلوم نہیں کہ مستقبل قریب میں مکمل فتح سے ان کی اصل مراد کیا ہے، جب کہ سیاسی بحران ہر طرف سے حملہ آور ہیں جو ان کے دفتر کو بھی تباہی کے دہانے پر لے جا چکے ہیں۔
اس قلمکار نے گزشتہ چند مہینوں میں اسرائیل کی تمام ناکامیوں کی وجہ صرف بنیامین نیتن یاہو کو قرار دینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ یہ وہی کچھ سال پہلے کے بنیامین نیتن یاہو ہیں جو مسائل کی گہرائیوں سے نکلے تھے لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ وہ 2024 میں تباہی کی میراث چھوڑ کر جائیں گے۔
انہوں نے عدالتی اصلاحات اور 7 اکتوبر کے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ اگرچہ کہا جاتا ہے کہ نیتن یاہو دونوں ہاتھوں سے گاڑی چلاتے ہیں، لیکن بظاہر وہ اسرائیل کو ایسی حالت میں آگے کی طرف ڈھکیل رہے کہ جب وہ پوری طرح ہوش میں نہیں ہے۔
اس قلمکار کے مطابق آج اسرائیل کے ڈھانچے میں آپ کو کوئی ایسی جگہ نہیں مل سکتی جہاں نیتن یاہو مشکل میں نہ ہوں اور وہ ہر طرف سے مسائل میں گھرے نہ ہوں نہ ہو، کالم کے ایک اور حصے میں انہوں نے اسرائیلی حکومت کی فوجی ناکامیوں پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فوجی محاذ پر نیتن یاہو نے خود کو ایک مشکل صورتحال میں ڈال دیا ہے جسے ناجائز قرار دیا جا سکتا ہے، ہر چند دنوں کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ نیتن یاہو ایک مشکل صورتحال میں ہیں۔ پریس کانفرنس میں یا کابینہ کے اجلاس کے ابتدائی کلمات میں، فوج کے اجتماع میں یا ان کے دفتر سے جاری ہونے والی پریس ریلیز میں، وہ پرانے ہی نعرے دہراتے ہیں اور مکمل فتح کا لفظ استعمال کرتے ہیں، لیکن یہ جملہ سڈیروٹ کے رہائشیوں کے لیے جو اس ہفتے راکٹوں کا نشانہ بن رہے ہیں اور 55000 رہائشیوں کے لیے جو 6 ماہ پہلے سے اپنے گھروں کو واپس نہیں آئے ہیں؟ تشریح کیسے کی جا سکتی ہے کہ اس کے بعد رفح پر حملہ نیتن یاہو کے پروپیگنڈہ ایجنڈے میں شامل ہے، ان کے وہ تمام کھوکھلے بیانات جو ہم نے سوچا تھا کہ 7 اکتوبر کے بعد ختم ہو جائیں گے، اس دوران بار بار دہرائے گئے تاکہ یہ ثابت ہو سکے کہ ان کے بارے میں ہمارے خیالات غلط نہیں۔
آج اسرائیل میں کوئی بھی بشمول کابینہ کے ارکان، خواہ جنگی کابینہ ہو یا سکیورٹی کابینہ یا سیاسی کابینہ، یہ نہیں جانتے کہ نیتن یاہو کا مکمل فتح سے کیا مطلب ہے، وہ سب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ ایک ایسا زبانی دعویٰ ہے جو ان کے منصوبے کو آگے بڑھانے کا ایک ذریعہ ہو سکتا ہے۔
جنگی کابینہ کے ایک اعلیٰ عہدے دار کا اس بارے میں کہنا ہے کہ مان لیتے ہیں کہ ہم نے رفح پر حملہ کر کے حماس کی باقی ماندہ فوجی طاقت کو تباہ کر دیا، اس کارروائی کا مطلب حماس کا خاتمہ نہیں ہے، حماس کی تباہی اس طرز حکمرانی کا متبادل ہے۔ حماس کی سیاسی بقا جاری رکھنے کا موقع کم ہو جائے گا، برے وقت کی وجہ سے امریکیوں کو بھی اس حقیقت کی وضاحت وزیر خارجہ انتھونی بلنکن اور قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کی صیہونی سلامتی کونسل کے چیئرمین تصاہی ہینگبی کے ساتھ کشیدہ ملاقات میں کرنا پڑی۔
نیتن یاہو کا اگلا بحران جنگ کے خاتمے کے بعد کا مسئلہ ہے، نیتن یاہو ابھی تک دو مخالف دھاروں کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں، ایک طرف سکیورٹی اداروں کے تمام اعلیٰ عہدے دار، تمام سابق وزراء جنگ، امریکی حکومت اور اعتدال پسند عرب ممالک اس بات پر زور دیتے ہیں کہ حماس کی جگہ الفتح یا فلسطینی اتھارٹی کو آنا چاہیے جبکہ نیتن یاہو کی دوسری طرف دو کابینہ کے وزیر ہیں، ایتمار بن گوئیر اور بیتسالل اسموٹریچ کو کہتے ہیں کہ حماس بری ہے اور فلسطینی اتھارٹی ایک شکاری سے زیادہ کچھ نہیں۔
نیتن یاہو نے اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے اور اس کی وجہ سے ایک بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے، اس جمود میں اسرائیلی فوج کی کامیابیاں، جن سے جنگی اہداف کے حصول میں تیزی آنی چاہیے،دن بہ دن کمزور ہوتی جارہی ہیں۔
مزید پڑھیں: طوفان الاقصیٰ نے کیسے خطے میں امریکی اور صیہونی خواب چکنا چور کیے؟
اس کالم کے ایک اور حصے میں صیہونی حکومت کے 12 ٹی وی چینل نے کہا ہے کہ کہ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے معاملے نے بھی نیتن یاہو کو مخمصے میں ڈال دیا ہے، گزشتہ ہفتے جنگی کابینہ میں نتن یاہو تقریباً اکیلے ہی اسرائیل کی مذاکراتی ٹیم کو مزید اختیارات دینے کے خلاف کھڑے تھے کیونکہ اس کارروائی کا مطلب ہے کہ ان مطالبات پر متفق ہونا ضروری تھا جن پر حماس کا اصرار ہے، یہاں نیتن یاہو کو ایک اور مخمصے کا سامنا تھا کہ بن گوئیر اور اسموٹریچ کو کیسے قائل کیا جائے کہ اس معاہدے کو ان کے نقطہ نظر اور وجہ سے ناجائز نہ سمجھا جائے اور وہ اتحاد سے نہ نکل جائیں، ویسے بھی کابینہ میں شامل کئی اعلیٰ عہدے داروں کے مطابق، نیتن یاہو یقینی طور پر معاہدے پر دستخط کرنے یا اپنی کابینہ برقرار رکھنے کے درمیان دوسرے آپشن کا انتخاب کریں گے۔