سچ خبریں: صہیونی ذرائع ان عوامل کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو قابض حکومت کو بڑے پیمانے پر حزب اللہ کا مقابلہ کرنے کی اجازت نہیں دیتے ۔
حزب اللہ سے وابستہ رضوان اسپیشل یونٹ نے صیہونی سکیورٹی اور فوجی حکام کی نیندیں اڑا دی ہیں اس لیے کہ صیہونی رائے عامہ میں اس جماعت کے صیہونی حکومت کے ساتھ جنگ میں مزید سنجیدہ داخلے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
اس سلسلے میں صہیونی اخبار Yedioth Aharonot نے اپنے فوجی تجزیہ کار یوسی یھوشوا کے حوالے سے، جن کے صیہونی حکومت کے سکیورٹی ذرائع سے قریبی روابط ہیں، کہا ہے کہ جب تک یہ یونٹ لبنان کی سرحدوں پر موجود ہے مقبوضہ علاقوں کے شمال کے اپنے گھر چھوڑ کر جانے والے 200 ہزار سے زیادہ باشندوں کے اپنے گھروں اور زندگیوں میں لوٹ کر جانے کی کوئی امید نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شمالی محاذ پر حزب اللہ کی عملداری
دریں اثناء حالیہ دنوں میں تحریک حماس نے لبنانی علاقوں سے نہاریا، عکا اور کرایوٹ کے شہروں اور حیفا کے آس پاس کے علاقوں کو نشانہ بنایا ہے جسے صہیونی اپنے خلاف خطرناک کشیدگی سمجھتے ہیں کیونکہ لبنان میں 33 روزہ جنگ کے بعد سے ان شہروں کو میزائل حملوں کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔
اس تناظر میں رائے الیوم اخبار نے لکھا ہے کہ شمالی محاذ میں جنگ کے آغاز سے ہی صیہونی حکومت کا خوف بڑھتا جا رہا ہے جب کہ صہیونی تجزیہ نگار اور صحافی اس خوف کی اصل وجہ رضوان یونٹ کو قرار دیتے ہیں جس کا بنیادی طور پر مقبوضہ الجلیل شہر کی آزادی میں اہم رول ہے۔
قابل ذکر ہے کہ حزب اللہ کے سرکاری ذرائع سے اس یونٹ کے بارے میں کوئی خاص معلومات شائع نہیں کی گئی ہیں، تاہم صہیونی کا کہنا ہے کہ رضوان یونٹ حزب اللہ فورسز کے خصوصی لڑاکا یونٹ پر مشتمل ہے جس کی تعداد 2500 سے زائد ہے اور ان کا انتخاب انتہائی سخت اور بھاری عمل میں لایا جاتا ہے،انہوں نے بہت مشکل تربیت حاصل کی ہے جس میں شوٹنگ کی مشق اور ٹینک شکن ہتھیاروں اور دھماکہ خیز مواد کا استعمال، لمبے راستوں پر چلنا اور سینے کے بل پہاڑوں پر چڑھنا، اور دشمن کی افواج سے گرفتاری کی کاروائیاں شامل ہیں،وہ تیز رفتاری اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ انتہائی خفیہ اور حساس فوجی کاروائیاں بھی کر سکتے ہیں۔
دستیاب اطلاعات کے مطابق مذکورہ یونٹ کو 7 سے 10 افراد پر مشتمل ٹیموں میں تقسیم کیا جاتا ہے جو مرکزی کمانڈ سے مسلسل احکامات یا لاجسٹک مدد حاصل کیے بغیر اپنے فرائض اور ذمہ داریاں آزادانہ طور پر انجام دے سکتے ہیں،یہ آزادی متذکرہ گروپوں کی بنیادی خصوصیت ہے جو حزب اللہ کے قائدین نے انہیں دی ہے ،اس طرح وہ اہم وقت میں میدان میں فوری حکمت عملی کے فیصلے کر سکتے ہیں لہٰذا مذکورہ یونٹس کے آپریشن فیصلہ کن اور تیز ہوتے ہیں۔
رضوان یونٹ کو 33 روزہ جنگ کے بعد شہید عماد مغنیہ نے تشکیل دیا تھا،اس یونٹ کی تشکیل جنگ کے ان نتائج میں سے ایک تھی جو حزب اللہ نے اس جنگ کے بعد حاصل کی،صیہونی حکومت کا خیال ہے کہ مذکورہ یونٹ آئندہ کسی بھی ممکنہ جنگ کے دوران الجلیل کو آزاد کرانے کے لیے کھودی گئی سرنگوں کو استعمال کرے گی،صیہونی حکومت کے عسکری تجزیہ کار رون بن یشائی کا خیال ہے کہ اس طرح کے آپریشن میں عراق اور دیگر ممالک کے گروہوں کی موجودگی کا امکان ہے۔
اس یونٹ کے بارے میں مزاحمتی محور سے متعلق جنگی میڈیا کی طرف سے شائع ہونے والی تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے پاس مشکل حالات میں درست شوٹنگ سے لے کر برف اور غیر مستحکم موسمی حالات میں لڑنے اور کھلے اور پہاڑی میدانوں میں لڑنے کے مختلف حربوں تک انتہائی درست جنگی مہارت ہے، پلاسٹک کی کشتیوں کا استعمال کرتے ہوئے فیلڈ اور سمندری آپریشنز اور دراندازی کی کارروائیاں اور چھوٹی کاروں اور موٹرسائیکلوں کا استعمال کرتے ہوئے فورسز کی تیز رفتار منتقلی یہاں تک کہ ٹینکوں اور بکتر بند پرسنل کیریئرز اور پیرا شوٹنگ کی تربیت بھی سیکھی ہے۔
رائے الیوم اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس یونٹ کے ارکان HS-9 رائفلز اور AKS-74 فورسز کی جدید کلاشنکوف جیسے جدید ہتھیاروں سے لیس ہیں۔
مزید پڑھیں: کیا حزب اللہ کے میزائلوں سے اسرائیل کو خطرہ ہے ؟
صیہونی ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق اس یونٹ کے ارکان نے شام میں اہم جنگی تجربہ حاصل کیا ہے جس میں توپ خانے اور بکتر بند صفوں میں سرگرمیاں، معلوماتی اور الیکٹرانک وارفیئر وغیرہ شامل ہیں ، اس مسئلے نے ان کی عملی سطح کو بڑھا دیا ہے۔
صیہونی حکومت حزب اللہ کو اپنے لیے ایک اسٹریٹجک اور اہم خطرہ سمجھتی ہے اور اس کا خیال ہے کہ اس خطرے کے باوجود کہ اس کی طاقت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، اسرائیل کے لیے بچنے کا کوئی امکان نہیں ہے اور جلد یا بدیر اسرائیلیوں کو اس کے ساتھ جنگ میں جانا ہو گا۔