سچ خبریں:ایک امریکی جریدے نے دعوی کیا ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے مابین خفیہ ملاقاتیں جنوری سے ہورہی ہیں اور خطے سے امریکی انخلا کے شائبہ نے اس عمل میں آسانی پیدا کردی ہے۔
امریکی جریدے فارن پالیسی نےکوئنسی انسٹی ٹیوٹ کی ایگزیکٹو نائب صدر ٹریٹا پارسی کا لکھا ہوا ایک تجزیہ شائع کیا ہے جس کے مطابق سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہا کہ ہم ایران کے ساتھ اچھے تعلقات کی تلاش میں ہیں اورہم ایران کے ساتھ اپنے اختلافات پر قابو پانے کے لئے خطے میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں جبکہ چار سال قبل اسی بدنام زمانہ شہزادے نے دعوی کیا تھا کہ ایران کے ساتھ بات چیت ناممکن ہےکیونکہ ہم ایک انتہا پسند نظریے پر مبنی حکومت سے بات کیسے کرسکتے ہیں؟ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ سعودی عرب جنگ کو ایران کے اندر لے جائے گا۔
پارسی نے لکھا ہے کہ اب ایسا کیا ہوا ہے کہ سعودی شہزادے نے اپنا طرز عمل بدل لیا ہے،یہاں پر ایک عنصر ضرور ہے جودوسروں سے زیادہ نمایاں ہے،ادھر یہ اشارے بھی مل رہے ہیں کہ امریکہ اپنی توجہ مشرق وسطی سے ہٹانے میں سنجیدہ ہے،تاہم یہاں مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے کیا کیا ہےبلکہ واشنگٹن نے جو نہیں کیا ہے وہ یہاں پر اثرانداز ہے ، ینی امریکہ نے یہ یقین دہانی نہیں کروائی ہے کہ وہ اپنے شراکت داروں کے لاپرواہ رویے سے قطع نظر غیر مشروط طور پر ان کی حمایت کرے گا،دوسری طرف مشرق وسطی میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ تنازعات میں شامل ہونے سے واشنگٹن کے انکار نے علاقائی طاقتوں کو اپنی منظور نظر سفارت کاری پر عمل پیرا ہونےپر اکسایا ہے۔
واشنگٹن خارجہ پالیسی اسٹیبلشمنٹ کی ماقبل پیش گوئیوں کے برخلافاس خطے سے امریکی فوج کے انخلاء نے کوئی انتشار پیدا نہیں کیا ہےبلکہ اس کے بجائے علاقائی سفارتکاری کرسٹل ہو گئی ہے،یادرہے کہمحمد بن سلمان کے ہمدردانہ بیانات کی وجہ میں غالبا عراق میں ایران اور اس کے عرب پڑوسیوں کے مابین خفیہ مذاکرات کا حوالہ دیا گیا ہے جو تناؤ کو کم کرنے اور یمن میں جنگ کے خاتمے کے لئے کیے گئے تھے ، اور سب سے پہلے فنانشل ٹائمز نے اس کی اطلاع دی، عراقی وزیر اعظم مصطفی الکاظمی نے عرب ممالک اور ایران کے مابین مذاکرات میں آسانی پیدا کردی ہے، وہ سعودی عرب اور ایران کے مابین تناؤ کو حل کرنے میں واضح طور پر دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ دونوں ممالک کے مابین علاقائی سطح پر دشمنی اور پراکسی جنگیں عراق کو مزید غیر مستحکم کرسکتی ہیں ،تاہم سعودی حکام نے ابتدا میں اس خبر کی تردید کی تھی اور تہران نے بھی اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا صرف یہ کہا کہ اس نے ریاض کے ساتھ بات چیت کا خیرمقدم کیا ہے لیکن یہ انکار درست نہیں تھا ۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ظاہر ہے کہ یہ مذاکرات ابتدائی مراحل میں ہیں اور ممکن ہے کہ یہ مذاکرات ایران اور اس کے عرب دشمنوں کے مابین اختلافات کو حل کرنے میں ناکام رہیں، تاہم متعدد عوامل ہیں جو بتلاتے ہیں کہ یہ مذاکرات نہ صرف سعودی ایران تعلقات کی سمت ، بلکہ خطے میں سلامتی کی صورتحال کو بھی ممکنہ طور پر بدل سکتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ علاقائی طاقتیں خود منظم ہوچکی ہیں اور اس ابتدائی علاقائی گفتگوکی رہنمائی کررہی ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ خطے سے باہر کی بڑی طاقتوں نے اس طرح کے مزاکرات کو مسلط نہیں کیا ہے اور نہ ہی کوئی بیرونی حکومت اس بات چیت کی رہنمائی کرنے کی ذمہ دار ہے۔
تاہم خطے کے ممالک کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس عمل کی رہنمائی کریں اور اس کو کامیاب اور پائیدار بنائیں،تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امریکہ نے اس عمل میں حصہ نہیں لیا ہے بلکہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے یہ سب سے واضح طور اس میں مداخلت کی ہے لیکن اس طرح نہیں جس طرح واشنگٹن کی خارجہ پالیسی عام طور پر کرتی ہے۔
تجزیے کے ایک اور حصے میں تریتا پارسی لکھتی ہیں کہ خطے کے بیشتر رہنماؤں کو سفارتکاری پر مجبور کرنے کے سبب امریکہ نے تہران کے خلاف ریاض کی حمایت یا اس خطے کے لئے کسی بھی نئے سفارتی اقدام کی تصدیق نہیں کی جس سے مذاکرات میں مدد ملی ہے،تاہم واضح اور بڑھتے ہوئے اشارے ملے ہیں امریکہ فوجی طور پر اس خطے سے خود کو دور کررہا ہے،پارسی نے اپنے تجزیے کے آخر میں کہا ہےکہ بائیڈن کی مشرق وسطی سے اپنے آپ کو دور کرنے کی خواہش کا مطلب یہ ہے کہ امریکی کم سے کمناقابل اعتبار ہوچکا ہے، اس لیے کہ مشرق وسطی میں واشنگٹن کے سکیورٹی شراکت داروں کے لئے اپنی سفارتکاری ایک پسندیدہ انتخاب بن گیا،اگر امریکہ جلد سے جلد اپنے آپ کو خطے سے دور کر دیتا تو علاقائی سفارت کاری اور بھی اہم ہوجاتی۔
در حقیقت 2019 میں بھی ایسا ہی نمونہ دیکھنے میں آیا تھا، اس وقت ، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یمنیوں کے ذریعہ سعودی آئیل فیلڈپر حملے پر ایران کے ساتھ جنگ میں داخل ہونے سے انکار کردیا تھاجس نے سعودیوں کو ایران کے ساتھ سفارت کاری پر عمل پیرا ہونے اور یمن میں حملوں کی شدت کو کم کرنے پر مجبور کیا، در حقیقت ، جب امریکہ نے ایران کی قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کو قتل کیا تو وہ بغداد کے راستے سعودیوں کو پیغام بھیجنے کے لئے بغداد میں داخل ہوا،سردار سلیمانی کے قتل کے ساتھ ہی ، ٹرمپ نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان بات چیت کو مزید دور کردیا، ٹرمپ انتظامیہ نے ایران کا مقابلہ کرنے کا وعدہ کیا تھا اور سعودیوں نے اس کو سچ سمجھا تھاتاہم ایسا کچھ نہیں ہوا۔