سچ خبریں: حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے اپنے خطاب میں کہا کہ خطے میں بہنے والے خون کے ہر قطرے کی ذمہ دار امریکی حکومت ہے، امریکہ اسرائیل سے زیادہ حماس کو تباہ کرنے پر اصرار کرتا ہے۔
المنار چینل کی رپورٹ کے مطابق لبنان میں حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے بیروت کے نواحی علاقے میں شہید کمانڈروں کی یاد میں منعقدہ تقریب سے خطاب میں کہا کہ اگر آج شہید ہمارے درمیان ہوتے تو ان کا موقف یہ ہوتا کہ وہ فلسطین کی حمایت اور مدد کریں اور صہیونی دشمن کا مقابلہ کریں نیز دشمن کو اس کے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہونے دیں اور غزہ اور خطے کے مظلوموں کی مدد کرنے کی کوشش کریں۔
یہ بھی پڑھیں: سید حسن نصر اللہ کی قائدانہ صلاحیت کے بارے میں صہیونی میڈیا کیا کہتا ہے؟
انہوں نے مزید کہا کہ حقیقی مجاہد اور معزز لوگ کمزوری کا شکار نہیں ہوئے ،وہ اپنے راستے اور اہداف کی درستی کے بارے میں کسی شک و شبہ میں مبتلا نہیں ہوئے ، اپنے راستے پر چلتے رہے اور اس فرمان پر قائم رہے کہ مزاحمت کو برقرار رکھنا بنیادی اصول ہے۔
حزب اللہ کے جنرل سکریٹری نے بیان کیا کہ مزاحمتی تحریکوں کی طاقت متأثرہ یا عارضی رد عمل کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یہ بصیرت، بیداری اور اہداف کو جاننے سے حاصل ہوتی ہے، دشمن یہ سمجھتا ہے کہ ہمارے کمانڈروں اور مجاہدین کو قتل کر کے یا ہمارے گھروں کو تباہ کر کے وہ ہمیں کمزور یا ہمیں پسپائی پر مجبور کر سکتا ہے۔
نصر اللہ نے لبنان کے جنوب میں صیہونیوں کے ہاتھوں ہونے والے عام شہریوں کے قتل عام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کاروائی کو سوچی سمجھی صیہونی سازش قرار دیا۔
ہم شہریوں پر حملے برداشت نہیں کریں گے
انہوں نے مزید کہا کہ ہم ایک حقیقی معرکے کے بیچ میں ہیں، مجاہدین کی شہادتیں اس جنگ کا حصہ ہیں لیکن جب بات عام شہریوں کی ہو تو معاملہ حساس ہو جاتا ہے اور یہ مزاحمت کے آغاز کے بعد سے یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے،فروری 1992 میں مزاحمت نے شہریوں کے تحفظ کے لیے مساوات قائم کی اور اسے 1993 میں طے کیا،ہم عام شہریوں پر حملوں کو برداشت نہیں کرتے،شہریوں کو قتل کرنے میں دشمن کا مقصد مزاحمت کی جانب سے اپنے اوپر حملے روکنے کے لیے دباؤ ڈالنا ہے ،7 اکتوبر سے غزہ کی حمایت میں جنوبی لبنان کا محاذ نہ کھولنے کے لیے بین الاقوامی دباؤ ہے۔
نصراللہ نے کہا کہ قتل عام کا جواب محاذ میں مزاحمت کا تسلسل اور اس میں اضافہ ہونا چاہیے، یہ اعمال ہمیں مزید پرعزم بناتے ہیں اور ہمارے ایمان کو مضبوط بناتے ہیں، کل ہم نے پہلے ردعمل کے طور پر درجنوں کاتیوشا راکٹوں اور فلق راکٹوں سے کریات شمونہ کو نشانہ بنایا۔ صیہونی دشمن نبطیہ، الصوانہ اور دیگر علاقوں میں ہماری خواتین اور بچوں کے خون کی قیمت چکائے گا، دوست اور دشمن سمجھ جائیں گے کہ اس خون کا جواب خون سے دیا جائے گا نہ کہ دشمن کی جاسوسی کے مراکز اور آلات کو نشانہ بنا کر۔
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے کہا کہ امریکیوں اور صیہونیوں کو جان لینا چاہیے کہ ہم فلسطینیوں کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
تمام مقبوضہ علاقے ہماری زد میں ہیں
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے تاکید کی کہ مزاحمت کے پاس ایک مضبوط اور درست میزائل ہیں جو کریات شمونہ سے ایلات تک مقبوضہ علاقوں کے تمام علاقوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے یمنی بھائی آج تک امریکی اور برطانوی جہازوں پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن اصل جنگ غزہ میں ہے۔
ہتھیار ڈالنے کی بھاری قیمت ہے
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے کہا کہ خطے میں امریکی اور اسرائیلی منصوبے کے خلاف ہمارے پاس دو راستے ہیں: مزاحمت یا ہتھیار ڈالنا۔ ہتھیار ڈالنے کی قیمت زیادہ ، خطرناک اور بہت بھاری ہے،لبنان میں ہتھیار ڈالنے کی قیمت ہمارے ملک کے خلاف اسرائیل کا سیاسی اور اقتصادی تسلط ہے، اگر فلسطینی قوم ہتھیار ڈال دیتی تو غزہ، مغربی کنارے اور یہاں تک کہ 48 کی اراضی کے مکینوں کو بے دخل کر دیا جاتا، فلسطین میں مزاحمت نے صیہونی حکومت کو وجودی بحران کا سامنا کیا ہے اور اس کا عروج الاقصیٰ طوفان تھا۔
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے کہا کہ کیا یہ کمزوری، بے حسی، ذلت و رسوائی نہیں ہے کہ مسلمان غزہ میں دوا تک نہیں بھیج سکتے؟
تل ابیب کی طرف سے حقائق کی غلط فہمی
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت ہماری ذمہ داریوں میں سے ایک یہ ہے کہ ہم حقائق کو واضح کریں کیونکہ 7 اکتوبر سے ہم اس حوالے سے اسرائیل کے جعلی بیانیوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں، اسرائیلی دشمن 7 اکتوبر کو مزاحمت اور حماس کے امیج کو تباہ کرنے کی سمت میں آگے بڑھا اور اسے داعش بنانے کی کوشش کی۔
اسرائیل دنیا کے سامنے سر قلم کیے جانے والے کسی ایک بچے کو یا زیادتی کا نشانہ بننے والی عورت کو نہیں لا سکا بلکہ اس کی فوج نے ہی آبادکاروں کو نشانہ بنایا گیا، جلایا گیا اور قتل کیا گیا، اگر 7 اکتوبر کے بارے میں تحقیقات کی جائیں تو، نیتن یاہو اور بائیڈن حماس کو تباہ کرنے پر اصرار کرتے ہوئے جس اخلاقی اور قانونی بنیاد کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ منہدم ہو جائے گی، بہت سے لوگ، یہاں تک کہ جو خود کو حماس کا دوست سمجھتے والوں نے 7 اکتوبر کے بارے میں اسرائیل کے تاریخی فریب پر یقین کر لیا۔
امریکہ فلائی اوور روکے گا تو اسرائیل جنگ بند کرے گا
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے مزید کہا کہ 7 اکتوبر سے اسرائیل روزانہ سینکڑوں خواتین اور بچوں کو قتل اور زخمی کرتا ہے اور دنیا خاموش ہے،مزاحمت نے دھوکہ دہی اور جعلسازی کا سب سے گھناؤنا عمل دیکھا ہے، آج دنیا کی سب سے بڑی منافقت اور دھوکہ دہی غزہ کی صورتحال کے حوالے سے امریکی حکومت کا موقف ہے، اس وقت اسرائیل کا پیسہ، ہتھیار، میزائل اور توپ کے گولے واشنگٹن سے آرہے ہیں اگر امریکہ یہ فلائی اوور بند کر دے تو صیہونی حکومت جنگ بند کر دے گی۔
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے کہا کہ اسرائیل سے زیادہ امریکہ حماس کو تباہ کرنے پر اصرار کرتا ہے لہذا خطے میں بہنے والے خون کے ہر قطرہ امریکی حکومت کی گردن پر ہے ، صہیونی حکام اس کے آلۂ کار ہیں۔
نصراللہ نے اشارہ کیا کہ طوفان الاقصیٰ نے اسرائیل کے اس ہدف کو ظاہر کیا جو سالوں سے سمندر سے دریا تک یہودی ریاست کا مفاد رہا ہے، یہودی ریاست کا منصوبہ بنیادی طور پر فلسطینیوں کو نشانہ بناتا ہے نیز یہ اردن، مصر اور لبنان کے لیے بھی خطرہ ہے۔
مزاحمت کا آپشن موثر اور مفید ہے
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے کہا کہ کمانڈروں کی شہادت کی برسی کے موقع پر ہم مزاحمت کے آپشن پر تاکید کرتے ہیں جو موثر ثابت ہوا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ لبنانی فوج مضبوط اور طاقتور ہو لیکن امریکہ لبنانی فوج کو مضبوط ہونے سے روکتا ہے، فلسطین اور عراق کی آزادی میں عوامی مزاحمت کا اثر ثابت ہو چکا ہے، اس کا مقصد غزہ کے لوگوں کا استحکام ہے، لبنان میں ہمیں مزاحمت، اس کے ہتھیاروں اور اس کی طاقت پر پہلے سے زیادہ توجہ دینی چاہیے کیونکہ مزاحمت دشمن کو خوفزدہ کرتی ہے اور مزاحمت پیدا کرتی ہے اور یہی عوامی مزاحمت کی خصوصیت ہے، مزاحمت کے محور میں سب کا ہدف دشمن کو شکست دینا اور غزہ کو فتح کرنا ہے، اس جنگ میں دشمن کی شکست کا مطلب اپنے مقاصد کے حصول میں ناکامی ہے۔
انہوں نے دشمن کو شکست پر مجبور کرنے کے لیے اسے نقصانات اور جانی نقصان پہنچانے کی ضرورت پر تاکید کی اور کہا کہ ہمارا ہدف مزاحمت اور غزہ کے باشندوں کی حمایت کرنا ہے۔
نصر اللہ نے سیاسی مذاکرات کے بارے میں بھی کہا کہ فلسطینی گروہوں نے یہ مسئلہ حماس پر چھوڑ دیا ہے اور ہم اس مرحلے میں داخل نہیں ہوں گے۔
مزید پڑھیں: صیہونی سید حسن نصر اللہ کی خاموشی سے خوفزدہ ، وجہ ؟
انہوں نے تاکید کی کہ مزاحمت کا ہتھیار لبنان کی حمایت ہے اور صدارت کا مسئلہ اندرونی مسئلہ ہے، مزاحمت کا ہتھیار لبنان اور اس کے عوام کی حمایت کرنا ہے، لبنان کی زمینی سرحدیں کھینچ دی گئی ہیں اور کسی بھی قسم کے مذاکرات کی بنیاد لبنان چھوڑنے پر ہونی چاہیے،مزاحمت کا کلچر زندگی اور وقار کا کلچر ہے نہ کہ سر تسلیم خم کرنے، ذلت و رسوائی کا کلچر۔