سچ خبریں:یورپی پالیمنٹ ممبر کا کہنا ہے کہ امریکہ سعودی عرب کو مارکیٹ کے طور پر انتخاب کر کے اس ملک میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم سے متعلق اپنے سیاسی عہدوپیمان کو پس پشت ڈال رہا ہے۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کے دوران سعودی عرب کو ایک پسماندہ اور الگ تھلگ ملک میں تبدیل کرنے کا وعدہ کیا تھا جس کے باعث جنوری 2021 ء میں بائیڈن کے وائٹ ہاؤس میں داخل ہوتے ہی ریاض اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات میں تناؤ پیدا ہوا،البتہ سعودی عرب کے انسانی حقوق کے ریکارڈ، جمال قاشقجی کے قتل اور یمن جنگ جیسے مسائل اٹھائے جانے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں مزید تلخی آئی۔
جبکہ بائیڈن نے اپنی صدارت کے آغاز میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے مسائل پر توجہ مرکوز کی ہے ، تاہم اب وہ مشرق وسطیٰ کے دورے پر سعودی شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کا ارادہ رکھتے ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کے مطابق حالیہ دنوں میں ریاض کے بارے میں واشنگٹن کا نظریہ بدل گیا ہے اور امریکی صدر اپنے آئندہ دورہ سعودی عرب کے موقع پر اپنے مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لیے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا چاہتا ہے۔
اس حوالے سے یورپی پارلیمنٹ کی رکن کلیئر ڈیلی نے کہا کہ یوکرین کی جنگ کے بعد سے سعودی عرب کی سودے بازی کی طاقت میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے جبکہ یوکرین جنگ کے جواب میں یورپ نے روس پر پابندیاں عائد کی تھیں جس کی لپیٹ میں روس کی وہ درآمدات بھی آتی ہیں جن پر یورپ کا بہت زیادہ انحصار ہے۔
کلیئر ڈیلی نے مزید کہا کہ سعودی عرب اور امریکہ کے قریبی تعلقات رہے ہیں لہٰذا امریکہ اب بھی اس ملک کو مارکیٹ کے طور پر انتخاب کر سکتا ہے، اگچہ سعودی عرب نے توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے تیل کی پیداوار بڑھانے سے انکار کر دیا ہے، تاہم یہ سودے بازی کا ایک واضح موقف ہے جس کے نتیجہ میں امریکہ سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم سے متعلق اپنے سیاسی عہدوپیمان کو پس پشت ڈال رہا ہے۔