سچ خبریں:اگرچہ صدی کی ڈیل کی نقاب کشائی کے دوران صہیونیوں نے فلسطینی اتھارٹی سے منہ موڑ لیا تھا لیکن اب تل ابیب نے ابو مازن کی قیادت میں فلسطینی اتھارٹی کو مضبوط کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
فلسطین لبریشن آرگنائزیشن PLO کےصیہونی حکومت کے ساتھ تقریباً تین دہائیوں کے مذاکرات اور سمجھوتوں جن میں وسیع پیمانے پر فلسطینیوں کے حقوق کی پائمالی کے ساتھ ساتھ وطن واپسی کے حق سے دستبرداری بھی شامل تھی، کو یقین ہو گیا کہ صیہونی حکومت کی نظر میں ان کا کوئی مقام نہیں رہا اور نہ ہی فلسطینی میدان میں ان کی کوئی جگہ بچی ہے نیزصدی کی ڈیل کا تسلسل فلسطین سے ان کی بے دخلی کا باعث بنے گا کیونکہ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ مغربی کنارے کو 1948 کے علاقوں میں ضم کر دیا جائے اور متبادل ہوم لینڈ کے نام سے ایک منصوبہ نافذ کیا جائے جس کے مطابق اردن یا جزیرہ نما سیناء میں فلسطینی عبوری حکومت قائم کی جائے گی جس کے نتیجہ میں تاریخی فلسطین میں کوئی فلسطینی نہیں رہے گا۔
ان حالات کے باوجود صیہونی حکومت کی نئی کابینہ کے اقتدار میں آنے کے بعد سے صیہونی حکومت کے حکام کی جانب سے فلسطینی اتھارٹی کی حمایت کی آوازیں سنائی دینے لگیں خاص طور پر اسرائیل کے وزیرجنگ بنی گانٹز اور اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ نے سرکاری طور پر کہا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی حمایت کرکے اسے کو مضبوط کیا جانا چاہیے۔
اب دیکھنا یہ ہے فلسطین میں کیا تبدیلی آئی ہے کہ صیہونی حکومت اگرچہ عارضی طور پر ہی سہی، فلسطینی اتھارٹی کی حمایت اور اپنی پوزیشن مضبوط کرنے پر آمادہ ہے؟نئی صیہونی حکومت کی فلسطینی اتھارٹی کو مضبوط کرنے کی خواہش کی پہلی وجہ امریکہ میں جوبائیڈن حکومت کی حمایت حاصل کرنا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کےبرخلاف اپنا نقطہ نظر تبدیل کرتے ہوئے جوبائیڈن نے اعلان کیا کہ وہ مذاکرات کا راستہ اختیار کریں گے، رویہ کی اس تبدیلی نے نیتن یاہو کی سربراہی میں سابقہ صیہونی حکومت اور امریکہ کے درمیان شدید دراڑ پیدا کردی، اس حد تک کہ بعض تجزیہ کاروں نے اس کی وجہ صیہونی حکومت کے تحت کابینہ کی تبدیلی اور نیتن یاہو کی معزولی کو قرار دیا ہے۔
ان کا خیال ہے کہ انہوں نے نیتن یاہو کو اس لیے معزول کیا تاکہ یہ تنازعہ جو اوبامہ دور سے شروع ہوا ہے، مزید خطرناک رخ اختیار نہ کر جائے۔