ترک میڈیا کی غزہ مذاکرات پر سیاست

ترک میڈیا کی غزہ مذاکرات پر سیاست

?️

سچ خبریں:ترکی کے سرکاری مؤقف کے حامی میڈیا ادارے غزہ میں جنگ بندی کے بعد اردگان کو سب سے بڑا ثالث اور امن معمار کے طور پر پیش کر رہے ہیں، حالانکہ ماہرین کے مطابق اصل کردار امریکہ، مصر اور قطر کے سہ فریقی اتحاد نے ادا کیا۔

ترکی کے حکومتی مؤقف سے منسلک میڈیا ادارے غزہ میں جنگ بندی کے مذاکرات میں اس ملک کے صدر رجب طیب اردگان کے کردار کو نمایاں کرنے اور انہیں اہم ترین ثالث و امن ساز رہنما کے طور پر پیش کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:ترکی، اردن، عراق اور لیبیا میں فلسطینیوں سے یکجہتی کیلئے بڑے پیمانے پر مظاہرے

صہیونی حملوں کے رکنے اور غزہ سے صیہونی افواج کی پسپائی کے بعد، یہ خبر ترکی کے تقریباً تمام بڑے اخبارات اور ٹی وی چینلز کی سرخیاں بن گئی۔

ان میڈیا اداروں نے ہمیشہ کی طرح اردگان کو علاقائی امن مذاکرات کے مرکزی رہنما کے طور پر متعارف کرایا اور ان کے دو قریبی ساتھیوں ابراہیم کالن (چیف آف انٹیلی جنس “مِت”) اور هاکان فیدان (وزیر خارجہ) کو مذاکرات کے کلیدی معمار کے طور پر پیش کیا۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ امریکی ریپبلکن پارٹی اور ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی میڈیا اداروں نے بھی بالکل ایسا ہی بیانیہ اپنایا ،  انہوں نے بھی ٹرمپ کو غزہ کے امن سفیر کے طور پر متعارف کرایا، جبکہ ان کے داماد جیرڈ کشنر اور مشیر ویتکاف کو امن کے غیر متبادل کردار کے طور پر سراہا۔

یوں، ترکی اور امریکہ دونوں میں حکومتی حامی میڈیا نے ایک جیسی حکمتِ عملی اپنائی: غزہ کی جنگ بندی کو اپنے اپنے رہنماؤں ؛ اردگان اور ٹرمپ کے کھاتے میں ڈالنا۔

بیشتر سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس معاہدے نے فلسطینی عوام کے لیے کوئی واضح ضمانت یا مستقل تحفظ فراہم نہیں کیا، لہٰذا اسے غیر معمولی سفارتی کامیابی قرار دینا درست نہیں۔

ترکی کے روزنامہ ینی شفق، جو حکمران جماعت آق پارٹی (AKP) سے قریبی تعلق رکھتا ہے، نے صفحۂ اول پر غزہ میں 9 اکتوبر کا امن مشرقِ وسطیٰ کی نئی صبحجیسے مبالغہ آمیز عنوانات شائع کیے، اور دعویٰ کیا کہ ترک افواج غزہ میں امن کے ضامن کے طور پر تعینات ہوں گی۔

اسی طرح، روزنامہ حریت نے غزہ کے چہروں پر دوبارہ مسکراہٹجیسے جذباتی عنوان کے ساتھ بچوں کی تصاویر شائع کیں اور لکھا کہ 733 دنوں کے بعد بندوقیں خاموش ہو گئیں۔

حریت کے ایڈیٹر ان چیف احمد خاقان، جو اکثر اردوان اور ہاکان فیدان کے غیر ملکی دوروں میں شریک رہتے ہیں، نے اپنے تجزیے میں لکھا کہ مصر جغرافیائی حیثیت سے اہم ہے، قطر مالی اثر رکھتا ہے، لیکن ترکی کا سفارتی نفوذ ان دونوں سے کہیں زیادہ ہے،حقیقت یہ ہے کہ اگر اردوان اور ٹرمپ دونوں نے متوازی کردار ادا نہ کیا ہوتا تو جنگ بندی ممکن نہ تھی۔ ترکی کی حماس کے ساتھ طویل المدتی قربت ہی اس سفارتی اثر کی بنیاد ہے۔

انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ ترک فوج "غزہ میں امن کی ضامن” ہوگی اور ابراہیم کالن نے شرم الشیخ مذاکرات میں اہم حفاظتی کردار ادا کیا۔

دیگر اخبارات کا مؤقف

روزنامہ حریت کے سینئر تجزیہ نگار عبدالقادر سلوی نے اپنے کالم میں لکھا کہ جو بائیڈن کی حکومت نے ترکی کو تمام سفارتی معاملات سے الگ رکھنے کی کوشش کی، اسی وجہ سے وہ ناکام رہی لیکن ٹرمپ نے سمجھ لیا کہ مشرقِ وسطیٰ میں صلح ترکی کے بغیر ممکن نہیں۔

ایک اور حکومتی اخبار آکشام نے مبالغہ آمیز سرخی لگائی کہ غزہ اب ترک فوج کے سپرد — شہر کی سلامتی ترکی کی ذمہ داری۔

اسی اخبار کے تجزیہ نگار ارای گوچلو ار نے لکھا کہ ترکی نے متوازن اور معاون سفارتکاری کے ذریعے بالآخر بین الاقوامی حمایت حاصل کی۔
انہوں نے کہا کہ اردگان کی اقوام متحدہ میں تقریر اور مصر، قطر اور امریکہ سے رابطوں نے آتش‌بس کی بین الاقوامی منظوری میں مدد دی، اور انقرہ کا نگران میکانزم بھی معاہدے کے متن میں شامل کیا گیا۔

روزنامہ صباح نے بھی دعویٰ کیا کہ "ترکی نے غزہ میں صلح پر اپنی مہر ثبت کر دی اور اردگان کے حوالے سے لکھا کہ فلسطینی ریاست کے قیام تک یہ کوششیں جاری رہیں گی۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ مبالغہ آرائی دراصل آق پارٹی کے میڈیا ماڈل کا ایک حصہ ہے، جس کے ذریعے ترکی کے علاقائی کردار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ بین الاقوامی سطح پر اثر و رسوخ کے خلا کو تشہیراتی طاقت سے پُر کیا جا سکے۔

ترکی کے آزاد تجزیہ نگار مراد صابونچی نے کہا کہ یہ دعویٰ کہ اردگان نے غزہ میں امن لایا، زمینی حقائق سے میل نہیں کھاتا۔ اگرچہ ابراہیم کالن ایک فعال اور تجربہ کار مذاکرات کار ہیں، لیکن ترکی کا کردار صرف ایک سہولت کار (Facilitator) تک محدود تھا، نہ کہ فیصلہ ساز۔

یورپی اور امریکی تھنک ٹینکس کی رپورٹس کے مطابق بھی اصل ثالثی امریکہ، مصر اور قطر کے سہ فریقی اتحاد نے انجام دی، جبکہ ترکی کا کردار معاون سطح سے آگے نہیں بڑھا۔

مزید پڑھیں:کوئی بھی فلسطینیوں پر دوسرا یوم نکبہ مسلط نہیں کر سکتا؛ اسرائیل کو 100 ارب ڈالر جرمانہ ادا کرنا ہوگا:ترکی

ترکی کے حکومتی میڈیا نے غزہ کے امن مذاکرات میں اردگان کی سفارتی کامیابی کو ضرورت سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے، حالانکہ بین الاقوامی مبصرین کے نزدیک ترکی کا کردار ایک سہولت کار اور تماشائی سے زیادہ نہیں تھا۔

مشہور خبریں۔

شہید ابو البراء کا ایک انولھا کارنامہ

?️ 2 فروری 2025سچ خبریں: مروان عیسی، عرفی ابو البراء، شہید محمد الضیف کے نائب،

اسرائیل خوف کی جنگ میں غرق

?️ 2 نومبر 2023سچ خبریں:یدیعوت احرانوت نے لکھا ہے کہ اسرائیل کو اس نوعیت کی

وائٹ ہاوس پر بیماریوں کے سایے میں

?️ 14 ستمبر 2025وائٹ ہاوس پر بیماریوں کے سایے میں  امریکہ کے صدور کی صحت

امریکہ میں بجلی بحران کا خطرہ

?️ 1 جولائی 2022سچ خبریں:ریاستہائے متحدہ میں مسائل کی ایک سیریز نے بجلی کی کمپنیوں

نااہل سیاستدانوں کو آگ بھی بجھنا نہیں آتا :ٹرمپ

?️ 12 جنوری 2025سچ خبریں:کیليفورنيا کے جنوب میں جاری تباہ کن آتشزدگی کے دوران، امریکہ

میں تل ابیب کی سرحدوں کو محفوظ سپرد کررہا ہوں: بینیٹ

?️ 24 جون 2022سچ خبریں:     اسرائیل کے سابق وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے اعتراف

غزہ جنگ کا امریکی اور صیہونی بنیادی مقصد

?️ 30 اکتوبر 2024سچ خبریں:غزہ کی جنگ میں امریکہ کی عملی حمایت، زمینی حقائق اور

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے