سچ خبریں:غزہ حکومت کے اطلاعاتی دفتر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اسماعیل ثوابتہ نے کہا ہے کہ جنگ بندی کا معاہدہ فلسطینی عوام کی فتح ہے کیونکہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ صہیونی حکومت غزہ پر مکمل کنٹرول اور مجاہدین کی قوت توڑنے میں ناکام رہی ہے۔
15 ماہ کی طویل جارحیت اور قتل عام کے بعد صہیونی حکومت، جس کا خواب حماس کو شکست دینا اور غزہ پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا تھا، بالآخر جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کرنے پر مجبور ہو گئی۔
یہ بھی پڑھیں: حماس کے سامنے اسرائیلی حکام بونے نظر آئے
یہ معاہدہ آج (اتوار) صبح سے نافذ ہو چکا ہے اور اسے فلسطینی عوام کی مزاحمت کی علامت اور انسانی امداد کی بحالی کا موقع قرار دیا جا رہا ہے۔
جنگ بندی کے بعد غزہ کی تعمیر نو اور امداد کی ترجیحات
غزہ حکومت کے اطلاعاتی دفتر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اسماعیل ثوابتہ نے کہا کہ جنگ بندی کے بعد فوری طور پر غزہ کی بنیادی ڈھانچے جیسے پانی، بجلی اور سیوریج سسٹم کی بحالی پر کام کیا جائے گا۔
اس کے ساتھ ہی ان خاندانوں کو رہائش فراہم کرنا ترجیح ہوگی جن کے مکانات اسرائیلی بمباری میں تباہ ہو گئے ہیں، مزید برآں تعلیم اور صحت کی سہولتوں کے لیے اسکولوں اور اسپتالوں کی تعمیر بھی منصوبے کا حصہ ہے۔
امدادی سامان کی آمد اور سرحدی صورتحال
انہوں نے مزید کہا کہ معاہدے کے تحت غزہ کی سرحدوں پر عائد پابندیاں کم کی جائیں گی تاکہ انسانی امداد، خوراک، ادویات اور تعمیراتی سامان علاقے میں داخل ہو سکے۔ حکومت فلسطین، بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر ان امدادی کوششوں کو کامیاب بنانے کی کوشش کرے گی۔
شمالی غزہ کے متاثرین کی بحالی
معاہدے کے تحت شمالی غزہ کے رہائشیوں کو اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت دی گئی ہے لیکن یہ علاقے جنگ میں بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ حکومت نے ان علاقوں میں فوری تعمیراتی کام شروع کرنے کے منصوبے بنائے ہیں، جن کے تحت پانی اور بجلی جیسی سہولیات کی بحالی اولین ترجیح ہوگی۔
صیہونی حکومت کی ناکامی اور فلسطینی فتح
ڈاکٹر ثوابتہ نے کہا کہ صہیونی حکومت نے غزہ میں مزاحمت کو توڑنے اور علاقے پر مکمل تسلط حاصل کرنے کے لیے طویل جنگ شروع کی تھی، لیکن آخرکار اس کی تمام کوششیں ناکام ہوئیں۔ یہ معاہدہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ مزاحمت نے اپنی طاقت کو ثابت کیا اور اسرائیل کو اپنے شرائط پر جنگ بندی کرنے پر مجبور کر دیا۔
مزید پڑھیں: جنگ بندی کے معاہدے سے صہیونیوں کی شرمناک ناکامی
صحافیوں کے قتل عام کے خلاف قانونی کارروائی
انہوں نے کہا کہ غزہ میں اب تک 214 صحافی شہید ہو چکے ہیں، اور ان جرائم کے خلاف بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمے دائر کیے جائیں گے۔ ان قانونی شکایات کا مقصد اسرائیل کو آزادی صحافت کے خلاف سنگین خلاف ورزیوں پر جوابدہ بنانا ہے۔