جنیوا (سچ خبریں) کورونا وائرس نے دنیا بھر میں شدید قہر مچا رکھا ہے اور اب تک اس مہلک وبا نے 13 کروڑ 13 لاکھ 49 ہزار افراد کو متاثر جبکہ 2861487 افراد اب تک اس مہلک بیماری سے ہلاک ہوچکے ہیں۔
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق امریکہ کورونا سے متاثرہ ممالک میں پہلے نمبر پر ہے جہاں ہلاکتیں 568513 ہو گئیں، کیسز 3 کروڑ 13 لاکھ 83 ہزار سے بڑھ گئے۔
برازیل کورونا سے متاثرہ ممالک میں دوسرے نمبرپر جہاں ہلاکتیں330297 ہو گئیں،کیسز1 کروڑ 29 لاکھ 53 ہزار سے بڑھ گئے ۔
بھارت کورونا سے متاثرہ ممالک میں تیسرے نمبرپر ہے جہاں ہلاکتیں 164655 ہوگئیں، کیسز 1 کروڑ 24 لاکھ 84 ہزار سے زائد ہو گئے۔
فرانس میں 96493 افراد لقمہ اجل بن چکے جبکہ متاثرین کی تعداد47 لاکھ41 ہزار تک پہنچ گئی، روس میں100017افراد جان کی بازی ہار چکے جبکہ کیسز کی تعداد45 لاکھ 72ہزار ہو گئی۔
برطانیہ میں اموات 126826ہو گئیں اور کیسز43لاکھ57 ہزار سے بڑھ گئے، اٹلی میں ہلاکتیں 110704ہو گئیں ،کیسز36 لاکھ 50ہزار سے بڑھ گئے، ترکی میں 32178 افراد جاں بحق جبکہ متاثرین کی تعداد34 لاکھ 45 ہزار 52 ہو گئی۔
سپین میں کورونا وائرس کی وبا سے اموات 75 ہزار 698 ہو گئیں جبکہ اب تک اس کے 33 لاکھ 965 مصدقہ متاثرین سامنے آئے ہیں۔
جرمنی اس فہرست میں 10 ویں نمبر پر ہے جہاں کورونا وائرس 77 ہزار 502 زندگیاں نگِل چکا ہے جبکہ اب تک اس موذی وبا کے 28 لاکھ 86 ہزار 20 کیسز رپورٹ ہوئے ۔
سعودی عرب اسی فہرست میں 42 ویں نمبر پر پہنچ چکا ہے جہاں کورونا وائرس سے اب تک کل اموات 6 ہزار 690 رپورٹ ہوئی ہیں جبکہ مریضوں کی تعداد 3 لاکھ 92 ہزار 9 تک جا پہنچی ۔
دنیا بھر میں کورونا سے شفا یاب ہونے والوں کی تعداد 10 کروڑ 57 لاکھ اور 2 کروڑ 27 لاکھ 63 ہزار سے زائد فعال کیسز ہیں۔
واضح رہے کہ عالمی ادارہ صحت نے رواں برس کے آغاز میں مختلف ممالک کے ماہرین صحت پر مشتمل ایک ٹیم چین بھیجی تھی تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ کورونا کا وائرس کہاں سے اور کیوں پھیلا؟ کیا مذکورہ وائرس لیبارٹری میں تیار ہوا؟
رپورٹ میں کہا گیا کہ اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ کورونا کا وائرس کسی لیبارٹری میں تیار کیا گیا ہو تاہم اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
رپورٹ میں کورونا سے متعلق پھیلنے والے ابہام پر قدرے تفصیلی جوابات دیے گئے ہیں تاہم اس بات کی واضح وضاحت نہیں کی گئی کہ تحقیقاتی ٹیم کو چینی حکام نے کتنا مواد فراہم کیا۔
رپورٹ کی اشاعت کے بعد عالمی ادارے کے سربراہ ڈاکٹر تیدروس ایڈہانوم نے بھی رپورٹ پر خدشات ظاہر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ معاملے کی دوبارہ تحقیقات کی ضرورت ہے۔