میانمار (سچ خبریں) میانمار فوج کی جانب سے جمہوری حکومت کا تختہ پلٹنے کے بعد باغی فوج کا ظلم و ستم جاری ہے جس کے نیتجے میں اب تک سینکڑوں افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں۔
لیکن میانمار کی فوج نے اس وقت ظلم و بربریت کی انتہا کردی جب سرچ آپریشن کے دوران ایک 7 سالہ بچی کو گولی مار دی جو اپنے والد کی گود میں ہی دم توڑ گئی۔
خبر رساں ادارے رائٹرز اور امدادی تنظیم ایسوسی ایشن برائے سیاسی قیدی (اے اے پی پی) اور رائٹرز کے مطابق 7 سالہ بچی ایک فوجی چھاپے کے دوران اپنے گھر میں ہلاک ہوئی۔
مقامی خبر رساں ادارے میانمار ناؤ نے بچی کے رشتہ داروں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ سیکیورٹی اہلکار بچی کے گھر میں داخل ہوئے اور بچی جس کا نام خن میو چٹ ہے، کو اس کے والد کی گود میں گولی مار دی۔
فوجیوں نے گھر میں داخل ہونے کے بعد بچی کے والد سے سوال کیا کہ کیا اس خاندان کا ہر شخص اس گھر میں موجود ہے، جب والد نے ہاں کہا تو انہوں نے اس پر جھوٹ بولنے کا الزام عائد کیا اور گولی ماری جو والد کے بجائے بچی کو جا لگی۔
والد کے بازوؤں میں ایک بچے کا بے رحمانہ قتل، میانمار کی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد کے ناجائز استعمال کا ایک نمونہ ہے۔
میانمار میں گزشتہ ماہ کے آغاز میں جنرل من آنگ ہیلنگ کی سربراہی میں فوج نے نومنتخب حکومت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے اور اقتدار سنبھالتے ہوئے جمہوری انتخابات کو ختم کردیا تھا جبکہ عوامی رہنما اور نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کو حراست میں لیا تھا اور حکمران فوجی جنتا قائم کیا تھا۔
بغاوت کے خلاف ملک میں اس کے بعد سے مظاہرے اور ہڑتال جاری ہیں تاہم جنتا کی پولیس فورس اور فوجی جوانوں کی طرف سے گولیوں، جبری گمشدگی اور سیاسی قیدیوں پر تشدد کی وسیع پیمانے پر رپورٹس کے ساتھ مظاہرین کو زبردست دباؤ کا سامنا ہے، خطرات کے باوجود ملک بھر میں ہزاروں افراد سول نافرمانی کی تحریک اور احتجاج اور حصہ لے رہے ہیں۔
بدھ کے روز مظاہرین نے کاروباری اداروں اور دکانوں کو بند رکھنے اور لوگوں کو گھروں میں ٹھہرنے کے لیے ‘خاموش ہڑتال’ کی جس کا مقصد پورے شہر کو بند رکھنا تھا۔
اے اے پی پی کے مطابق بغاوت کے بعد سے اب تک کم از کم 275 افراد ہلاک ہوچکے ہیں تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد ممکنہ طور پر اس سے بہت زیادہ ہے۔
دوسری جانب بچوں کے حقوق کے حوالے سے عالمی تنظیم سیو دی چلڈرن نے بتایا کہ ان ہلاکتوں میں 20 سے زیادہ بچے ہیں۔