سچ خبریں: لبنان میں حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان 21 دن کی جنگ بندی کی تجویز، جو عرب اور مغربی سیاستدانوں کی جانب سے سیاسی حل کی کوشش کے طور پر پیش کی گئی تھی، اسرائیلی وزراء اور حکام کی شدید مخالفت کا شکار ہو گئی۔
روسیا الیوم کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی جانب سے لبنان میں جاری جارحیت اور بڑے پیمانے پر قتل عام کے باوجود، اسرائیلی کابینہ کے وزراء نے لبنان میں عارضی جنگ بندی اور حملے روکنے کی مخالفت کی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ حزب اللہ کے خلاف فوجی کارروائیاں مکمل فتح تک جاری رہنی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: حیفا کو نشانہ بنانا کیوں اہم ہے؟ / حزب اللہ حملہ آور مرحلے میں داخل
اسرائیلی اپوزیشن لیڈر یائیر لاپڈ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پیغام میں لکھا کہ اسرائیلی حکومت کو آج صبح ہی بائیڈن-میکرون جنگ بندی کی تجویز قبول کرنے کا اعلان کرنا چاہیے، لیکن صرف 7 دن کے لیے، تاکہ حزب اللہ کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹمز کی دوبارہ تعمیر کو روکا جا سکے، ہم کوئی ایسی تجویز قبول نہیں کریں گے جس میں حزب اللہ کا ہماری شمالی سرحدوں سے پیچھے ہٹنا شامل نہ ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ جو بھی تجویز پیش کی جائے، اس کا مقصد شمالی علاقوں کے رہائشیوں کو فوری اور محفوظ واپسی کی اجازت دینا نیز قیدیوں کی رہائی کے بارے میں مذاکرات کا دوبارہ آغاز ہونا چاہیے، اگر جنگ بندی کی معمولی خلاف ورزی بھی ہوئی تو اسرائیل پوری طاقت کے ساتھ دوبارہ لبنان پر حملہ کرے گا۔
اسرائیل کے وزیر خزانہ بیتسلئیل سموٹریچ نے ایک بیان میں کہا کہ شمال میں جنگ دو ہی صورتوں میں ختم ہونی چاہیے: یا تو حزب اللہ کا مکمل خاتمہ ہو جائے یا جنگ جاری رہے۔
دشمن کو موقع نہیں دینا چاہیے کہ وہ اپنے زخموں سے صحت یاب ہو یا جنگ جاری رکھنے کے لیے دوبارہ تیار ہو، حزب اللہ کی شکست یا جنگ کا تسلسل، شمالی اسرائیل کے رہائشیوں کی حفاظت بحال کرنے کا واحد راستہ ہے۔
اسرائیلی وزیر اوریت استروک نے کہا کہ جنگ بندی کے لیے کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے، نہ 21 دن کے لیے اور نہ ہی 21 گھنٹوں کے لیے۔
انہوں نے کہا کہ حزب اللہ نے لبنان کو ایک بارود کا ڈھیر بنا دیا ہے اور اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 نے شمالی اسرائیل کے شہریوں کو اپنے ہی ملک میں یرغمال اور بے گھر کر دیا ہے۔
صیہونی وزیر کا کہنا تھا کہ ہم ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرائیں گے اور اصلاحات تک رکے بغیر آگے بڑھیں گے۔
اسرائیل کے وزیر داخلہ ایتمار بن گویر کی سربراہی میں حزب عوتسما یهودیت نے ایک مختصر بیان میں کہا کہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ بندی کے لیے ہونے والے مذاکرات کی خبروں کے بعد، عوتسما یهودیت کے اراکین جلد ایک ہنگامی اجلاس منعقد کریں گے۔
اسرائیل کے وزیر ثقافت اور کھیل میکی زوہار نے کہا کہ حزب اللہ سے کوئی ٹھوس فائدہ حاصل کیے بغیر جنگ بندی ایک بڑی غلطی ہو گی جو حالیہ دنوں میں اسرائیل مو ملنے والی بڑی فوجی کامیابیوں کو خطرے میں ڈال دے گی، مجھے امید ہے کہ یہ رپورٹس غلط ہیں اور ہمیں شمال میں مکمل فتح تک آگے بڑھنا چاہیے۔
اسرائیلی کنسٹ کے رکن گدعون ساعر نے کہا کہ حالیہ دنوں میں لبنان میں اسرائیل کے ہوائی حملوں کی شدت میں کمی اور بیروت میں حزب اللہ کی صلاحیتوں کو نشانہ نہ بنانا، جیسے کہ جنوب لبنان اور بقاع میں ہوا تھا، ایک بڑی غلطی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حزب اللہ کی اہم صلاحیتوں کو تباہ کرنے کے لیے کارروائیوں کا جاری رہنا اور ان کا مکمل ہونا ضروری ہے، جو اسرائیل کے اندرونی علاقوں کے لیے خطرہ ہیں۔
ان کارروائیوں کو روکنا حزب اللہ کو موقع دے گا کہ وہ ایسے اقدامات کرے جو مستقبل میں اس مشن کو مزید مشکل بنا دیں گے۔
اسرائیلی کنسٹ کی خارجہ اور سکیورٹی کمیٹی کے رکن زیئیف الکین نے کہا کہ اگر 21 دن کی عارضی جنگ بندی کے معاہدے کی رپورٹس درست ہیں، تو یہ اسرائیل کی جانب سے ایک سنگین غلطی ہوگی، یہ حزب اللہ کو موقع فراہم کرے گی کہ وہ اپنے زخموں سے صحت یاب ہو اور دوبارہ جنگ کے لیے اپنی صفوں کو منظم کرے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کا لبنان میں مقصد بالکل واضح ہونا چاہیے، کوئی عارضی جنگ بندی نہیں، بلکہ غزہ کی جاری جنگ سے قطع نظر، مستقل طور پر حزب اللہ کو دریائے لیتانی کے پار دھکیلنا ہو گا۔
مزید پڑھیں: لبنان کی سیاسی جماعتوں اور تحریکوں کی حزب اللہ کے ساتھ بے مثال یکجہتی
جب تک حزب اللہ ان شرائط کو قبول نہیں کرتی، ہمیں اس کی کمزوری سے فائدہ اٹھانا چاہیے، فوجی دباؤ بڑھانا چاہیے اور لبنان میں پوری قوت کے ساتھ کارروائی کرنا چاہیے۔
ہم دہشت گرد تنظیموں کو ہچکچاہٹ کے ساتھ شکست نہیں دے سکتے اور نہ ہی شمال کے باشندوں کو محفوظ طریقے سے ان کے گھروں میں واپس بھیج سکتے ہیں!