حج میں صہیونی مخالف نعروں پر پابندی کس چیزکی علامت ہے؟لبنانی اہل سنت عالم کی زبانی

حج میں صہیونی مخالف نعروں پر پابندی کس چیزکی علامت ہے؟لبنانی اہل سنت عالم کی زبانی

?️

سچ خبریں: ایک عربی مفکر کا کہنا ہے کہ حج میں صہیونی مخالف اور فلسطین کی حمایت میں نعروں پر پابندی کا مطلب صہیونی-امریکی دشمن کے ساتھ ہمبستگی کا اعلان ہے۔

غزہ میں ہونے والی نسل کشی اور جرائم کی مذمت اور انسانی قوانین کی خلاف ورزی نیز مقدسات کی بے حرمتی کی مذمت کرنا ضروری ہے تاکہ ناآگاہ لوگوں کے ضمیر کو بیدار کیا جا سکے۔

دوسری جانب بین الاقوامی سطح پر فلسطین کے موضوع پر انسانی بیداری اور ابھار دیکھنے میں آ رہا ہے ، امریکہ، جرمنی اور دیگر ممالک میں فلسطین کی حمایت میں وسیع مظاہرے اور ریلیاں منعقد کی جا رہی ہیں، اس کے باوجود مکہ مکرمہ میں فلسطین کے جھنڈے لہرانے اور فلسطین کی حمایت میں نعرے لگانے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حج کے موسم میں فلسطین کی حمایت کا فقدان

اس حوالے سے لبنان کے اہل سنت عالم شیخ احمد متعب القطان کا کہنا ہے کہ آل سعود حکومت نے حج کے موقع پر فلسطین کی حمایت کے نعروں خصوصاً غزہ کے مظلوموں کی حمایت کے نعروں پر پابندی لگا کر یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ امریکی-صہیونی دشمن کے ساتھ ہمبستگی کا اعلان کر چکی ہے اور اس دشمن کو ظالم کہنے یا غزہ یا فلسطین کے مظلوم مستضعفین کی حمایت کرنے کی ہمت نہیں رکھتی، اسی وجہ سے ہم اس اقدام کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس حکومت کے کسی بھی اقدام پر تعجب نہیں ہوتا، یہ حکومت نہ صرف اپنے شہریوں کو صہیونی مخالف مظاہروں سے روکتی ہے بلکہ اگر وہ صہیونی مخالف مواد سوشل میڈیا پر شائع کریں تو انہیں سخت سزا دی جاتی ہے۔

لبنانی عالم دین نے کہا کہ سعودی حکام کا ماننا ہے کہ اسرائیل کی مخالف کا مطلب ہمارے اتحادی اور حلیف امریکہ کی مخالفت ہے اس لیے کہ اسرائیل امریکہ کا حلیف ہے، اسی وجہ سے سعودی حکومت اسلام کے دشمنوں کی اتحادی ہے لہذا یقیناً وہ اپنی قوم کو ان کی مذمت کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی، البتہ میں عربی اور اسلامی قوموں کو بھی اس معاملے میں بےقصور نہیں مانتا کیونکہ ان پر فرض ہے کہ وہ فلسطین کے مظلوموں کی حمایت میں کچھ کریں۔

حج میں کفار اور ظالموں سے برائت ضروری اور ناقابل انکار عمل ہے کیونکہ یہ نبی اکرم کی سنت کی پیروی ہے، میرے خیال میں حج کی وحدت بخش تقریب کو امت اسلامیہ کے مسائل پر غور کے لیے استعمال کرنا چاہیے اور موجودہ حالات میں فلسطین کے موضوع سے زیادہ اہم اور ضروری کوئی موضوع نہیں ہو سکتا؟ کیا پوری دنیا میں فلسطین کے ہمارے بھائیوں سے زیادہ مظلومیت کہیں اور ہے؟ غزہ میں نسل کشی جاری ہے اور ہم 37 ہزار سے زائد فلسطینیوں کی شہادت اور 80 ہزار سے زائد کے زخمی ہونے کے گواہ ہیں جن میں زیادہ تر خواتین، بچے اور بوڑھے شامل ہیں۔

ان حالات میں عرب اور اسلامی قوموں سے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ عربوں کو ان حالات میں کیا کرنا چاہیے؟ ہم سب پر فرض ہے کہ اٹھ کھڑے ہوں اور اس موضوع کا عرب حکمرانوں سے مطالبہ کریں۔

مزید پڑھیں: مسئلہ فلسطین، مغربی ممالک کی دہشت گردی اور عرب ممالک کی خیانت

تمام عرب اور اسلامی قوموں کو مظلوم فلسطین اور غزہ کی قوم کی حمایت کے لیے اٹھ کھڑے ہونا چاہیے، ہمیں ریلیاں منعقد کرنی چاہئیں اور اپنے موقف کا اظہار کرنا چاہیے اور جو کچھ بھی ہمارے اختیار میں ہے اس کے ذریعے فلسطین کی قوم کی حمایت کرنی چاہیے جو ہمارا شرعی فریضہ ہے کیونکہ نبی اکرم نے اسلامی معاشرے کو ایک جسم کی مانند قرار دیا ہے کہ اس کے کسی حصے کو نقصان پہنچے تو پورا جسم تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

مشہور خبریں۔

وزیراعظم کا مجھ پر اعتماد ہی اطمینان ہے: وزیر خارجہ

?️ 15 فروری 2022اسلام آباد (سچ خبریں) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے

جنوبی غزہ کے فلسطینی ڈاکٹروں اور بیماروں کی اپیل

?️ 5 دسمبر 2023سچ خبریں: گزشتہ چند گھنٹوں کے دوران اسرائیلی فوج نے غزہ کی

ٹرمپ کا روسی صدر پر سنگین الزام

?️ 26 مئی 2025 سچ خبریں:امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو

صدر مملکت نے سری لنکن عوام کو بڑا آفر دیا

?️ 20 مارچ 2021اسلام آباد(سچ خبریں) پاکستان کے دورے پر موجود سری لنکا کی فوج

طالبان کا افغانستان میں سفاکانہ عمل، افغان ریڈیو اسٹیشن کے منیجر کو قتل اور ایک صحافی کو اغوا کرلیا

?️ 9 اگست 2021کابل (سچ خبریں)   طالبان نے افغانستان میں سفاکانہ عمل انجام دیتے ہوئے

نواز شریف کی ایک مرتبہ پھر عدلیہ پر سخت تنقید

?️ 25 مئی 2023اسلام آباد:(سچ خبریں) مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے ایک

عراقی وزیراعظم السوڈانی پڑوسی ممالک کے خلاف حملے کے لیے استعمال کرنے کے خلاف 

?️ 14 جون 2025سچ خبریں: عراقی وزیراعظم محمد شیاع السوڈانی نے صہیونیست حکومت کے ایران

قومی سلامتی پالیسی کا اجراء اہم سنگ میل ہے:ترجمان پاک فوج

?️ 29 دسمبر 2021راولپنڈی (سچ خبریں) پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے