سچ خبریں: 20 سالوں میں پہلی بار اقوام متحدہ کے خصوصی انسپکٹر کو گوانتانامو بھیجنا واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ اقوام متحدہ دو دہائیوں سے اس حساس معاملے میں اپنی کم سے کم ذمہ داریوں کو کس طرح نظرانداز کر رہا ہے!
بلاشبہ گوانتانامو نہ صرف ایک خوفناک جیل کا نام ہے بلکہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کہلانے والی قابض اور دہشت گرد حکومت کی انسانی حقوق کی معروضی خلاف ورزی کی ایک بھرپور علامت بھی ہے جو بش جونیئر کے زمانے سے لے کر آج تک واشنگٹن کی انسانی حقوق کی پامالی کا مظہر ہے۔
یہ بھی پڑھیں: گوانتانامو امریکی تاریخ کی رسوائی
قابل غور بات یہ ہے کہ؛ اگرچہ یہ جیل ریپبلکنز کے نام پر رجسٹرڈ ہے، لیکن اس نے وائٹ ہاؤس میں دو ڈیموکریٹک صدور (اوباما اور بائیڈن) کی موجودگی کے دوران بھی کام جاری رکھا تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ امریکہ میں چاہے جس کی بھی حکومت ہو قبضہ اور تشدد اس ملک کی سیاست کا ایک جز ہے،مسز "فینولا نی اولین”، آئرش نژاد وکیل اور اقوام متحدہ کی آزاد انسپکٹر، جنہوں نے گزشتہ پیر کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو ایک پریس کانفرنس میں گوانتانامو کے اپنے مشاہدات کے بارے میں اپنی 23 صفحات پر مشتمل رپورٹ پڑھ کر سنائی، کہا: گوانتانامو کے 30 میں سے 19 قیدی جو 20 سال سے اس جیل میں بند ہیں، انہیں ایک بھی الزام کا سامنا نہیں کرنا پڑا! گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے، انہوں نے ان کی مسلسل نظربندی کی وجہ "امریکی حکام کی جانب سے حراست میں لیے گئے افراد پر تشدد اور دیگر ناروا سلوک کے بارے میں اپنی عدم رضامندی ظاہر کی۔
گوانتاناموبے کے امریکی حراستی مرکز کا دورہ کرنے والی اقوام متحدہ کی پہلی آزاد انسپکٹر نے اعلان کیا ہے کہ وہاں قید 30 افراد کو بین الاقوامی قانون کے تحت ظالمانہ، غیر انسانی اور ذلت آمیز سلوک کا سامنا ہے،ان کے بقول، بہت سے زیر حراست افراد جن سے انہوں نے ملاقات کی ہے وہ "گہرے نفسیاتی صدمے کا شکار ہیں جن میں بے چینی، بے بسی، ناامیدی، تناؤ، ڈپریشن شامل ہے ،فینولا نی کا یہ بھی ماننا ہے کہ گوانتانامو کے بہت سے قیدی جو خاندان اور کمیونٹی کی مدد سے محروم ہیں، کچھ کو بغیر کسی مقدمے کے قید کیا گیا اور کچھ کو بغیر کسی الزام کے، 21 سال سے وہاں قید رکھا گیا ہے،یہ لوگ بھوک ہڑتال کرتے ہیں اور جبری کھانا کھلانے، خود کو نقصان پہنچانے، خودکشی کی کوشش اور قبل از وقت بڑھاپے کا شکار ہیں۔
گوانتاناموبے میں لوگوں کی نوعیت سے قطع نظر، فیونولا نی اولین کی حالیہ رپورٹ دو واضح حقائق سے پردہ اٹھاتی ہے:
1۔ سب سے پہلے یہ کہ امریکی اور مغربی حکام کے جھوٹے دعوؤں کے برعکس گوانتانامو جیل کو بند نہیں کیا گیا اور انسانی حقوق کی دعویدار تنظیموں کی خاموشی میں وہاں تشدد جاری ہے۔
2۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ 20 سالوں میں پہلی بار اقوام متحدہ کی خصوصی انسپکٹر کو گوانتانامو بھیجنا واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ اقوام متحدہ دو دہائیوں سے اس حساس معاملے میں اپنی کم سے کم ذمہ داریوں کو کس طرح نظرانداز کر رہا ہے! خوفناک بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ اس جیل میں برسوں کے صریح جرائم کے بعد ایک خصوصی انسپکٹر کو گوانتانامو بھیجنے کو اعزاز سمجھتا ہے! اقوام متحدہ کی کم از کم ذمہ داریوں کی انجام دہی میں یہ وہی ساختی اور آپریشنل کشمکش ہے جسے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے بین الاقوامی نظام میں تسلط اور طاقت کے منظم استعمال کے لیے ایک فورم میں تبدیل کر دیا ہے۔
مزید پڑھیں: گوانتانامو بے جیل امریکہ کے دامن پر بدنما دھبہ:اقوام متحدہ
مزید تلخ بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی انسپکٹر نے اس جیل کی تعمیر کی غیر قانونی نوعیت اور عراق اور افغانستان پر امریکہ کے قبضے سے قطع نظر اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ ’’گوانتانامو کے قیدیوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک میں بہتری آئی ہے!