سچ خبریں: ترکی سے مقبوضہ فلسطین کے علاقوں میں اشیا کی برآمد پر نئی پابندیوں کے نفاذ نے صہیونی حکام کو ناراض کر دیا ہے۔
تاریخی طوفان الاقصی آپریشن کے 6 ماہ بعد غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم بدستور جاری ہیں اور حملوں کے علاقائی اور بین الاقوامی نتائج نے نئی جہتیں اختیار کر لی ہیں جس کے بعد ترکی بھی بالآخر اسرائیل کے خلاف موقف اختیار کرنے پر مجبور ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ترک صدر کا منافقانہ بیان، ترکی اور اسرائیل کے مابین روابط کو مشرق وسطیٰ کے لیئے اہم قرار دے دیا
اگرچہ اردگان کی حکومت کا نیا فیصلہ فیصلہ کن اور سنجیدہ نہیں ہے لیکن یہیں تک اس کے نتائج سامنے آئے ہیں اور ترکی سے مقبوضہ علاقوں میں اشیا کی برآمد پر نئی پابندیاں عائد کرنے سے صہیونی حکام کو غصہ آیا ہے۔
ترک وزیر تجارت عمر پولاد نے، جو حکومت کے ساتھ کاروبار کرنے سے ہمیشہ انکار کرتے رہے ہیں، اعلان کیا کہ انقرہ حکومت نے اسرائیل کو متعدد برآمدی اشیاء محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے، پولاد نے نشاندہی کی کہ اب سے 54 حساس اور اہم اشیا اسرائیل کو برآمد نہیں کی جائیں گی اور یہ صورتحال جنگ بندی کا اعلان ہونے تک جاری رہے گی!
یہ کمزور اور غیر موثر فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب استنبول میں "ہزار یوتھ فار فلسطین” نامی آزاد اور غیر جانبدار گروپ نے صیہونی حکومت کے ساتھ کاروبار بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا، لیکن پولیس نے ان احتجاجی نوجوانوں کو زدوکوب کیا۔
عمل یا ردعمل؟
غزہ اور مغربی کنارے پر صیہونی حکومت کے وحشیانہ حملوں کو 6 ماہ سے کچھ زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس دوران 34 ہزار سے زائد فلسطینی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جن میں سے اکثر خواتین اور بچے ہیں لیکن اس تمام عرصے کے دوران ترکی سے مقبوضہ علاقوں میں مال بردار بحری جہازوں کی ترسیل ایک ہفتہ بھی نہیں رکی اور اس دوران 5 ارب ڈالر سے زائد کا سامان اسرائیل پہنچ چکا ہے۔
جنگ کے پہلے ہفتوں سے ہی ترک سیاست دانوں کی طرف سے اردگان کی حکومت کے اس غلط انداز کے خلاف شدید احتجاج شروع ہو گیا لیکن اردگان کی ٹیم نے تنقید کو نظر انداز کیا اور کام جاری رکھا۔
اسرائیل کو اشیا کی برآمدات پر پابندی کی وجوہات کے بارے میں ترکی کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان کے الفاظ نے فلسطین کے حوالے سے انقرہ کے عملی اور خود غرضانہ رویہ کے دیگر پہلوؤں کا انکشاف کیا۔
ہاکان فیدان نے اسرائیل کو 54 اشیاء برآمد نہ کرنے کے مذکورہ فیصلے کی وجہ کے بارے میں کہا کہ اردگان کی حکومت کا یہ فیصلہ اسرائیل کی جانب سے ترکی کی تجویز کو نظر انداز کرنے کا ردعمل ہے۔
دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ انقرہ کا فیصلہ رضاکارانہ اور آزادانہ عمل نہیں ہے بلکہ ایک غیر فعال اور تاخیری رد عمل ہے، قصہ کچھ یوں ہے کہ ہاکان فیدان نے اردنی حکام کے ذریعے اسرائیلیوں کو تجویز پیش کی کہ وہ ترک فوج کے دیو ہیکل ٹرانسپورٹ طیارے کو غزہ کے لیے طبی اور خوراک کی کچھ کھیپ لے جانے کی اجازت دیں لیکن اسرائیل نے ترکی کی پیشکش کو سختی سے مسترد کر دیا جس کے بعد ہاکان فیدان نے بھی اعلان کیا کہ ترکی کا نیا فیصلہ صہیونی حکام کی بے توقیری کا ردعمل ہے۔
سعادت پارٹی کے سربراہ احمد داؤد اوغلو نے اسرائیل کے حوالے سے انقرہ کے نئے فیصلے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کا فیصلہ بے حسی کی نشاندہی کرتا ہے جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ صیہونی حکومت کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کیا جائے نہ کہ اس کو سامان کی ترسیل کو محدود کیا جائے۔
سعادت پارٹی کے رہنما تیمل کرامیلوگلو نے بھی کہا کہ برآمدی اشیاء کو محدود کرنا بے معنی ہے ، ترکی کو اسرائیل پر مکمل پابندی لگا دینی چاہیے۔
انہوں نے پہلے اعلان کیا تھا کہ ان کے استاد مرحوم نجم الدین اربکان نے کبھی بھی اسرائیل کو ایک ملک اور حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کیا اور ہمیشہ صیہونی حکومت کا لفظ استعمال کیا لہذا ترکی کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان نظریات کی پیروی میں فلسطینیوں کے ساتھ ہو۔
اسرائیل اور انقرہ کی کمزوری
اگرچہ ترکی اسرائیل کے ساتھ تجارت کے حوالے سے غیر فعال اور مفید رویہ رکھتا ہے لیکن اس محدود فیصلے نے صہیونی حکام کو شدید غصہ دلایا ہے۔
اسرائیل کے وزیر خارجہ Yisrael Kats نے ترکی کو سرزنش کرنے اور مخاطب کرنے کے علاوہ ترکی کو دھمکی دی کہ اس طرح کے رویے کے جواب میں اسرائیل نہ صرف ترکی میں سرمایہ کاری روک دے گا بلکہ امریکہ اور دیگر ممالک سے بھی کہے گا کہ وہ اپنے ہتھیار استعمال کریں، اس اسرائیلی اہلکار نے دعویٰ کیا کہ اردگان نے اس فیصلے سے ترکی کے اقتصادی مفادات حماس پر قربان کر دیے۔
صہیونی حکام کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اردگان کی حکومت کی بنیادی کمزوری کو سمجھ چکے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ ترکی کے خلاف اقتصادی خطرے کا اعلان کر کے، خاص طور پر جب اس ملک کی معیشت کو بے مثال مہنگائی اور گہرے بحران کا سامنا ہے، اس پر دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔
کیا تعلقات ٹوٹ جائیں گے؟
گزشتہ چند مہینوں میں ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے ہمیشہ صیہونی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے خلاف بات کرنے کو ترجیح دی ہے نہ کہ خود حکومت کے خلاف! اس شاطرانہ پالیسی کا انتخاب اس مقصد کے ساتھ کیا گیا ہے کہ ترکی جانتا ہے کہ نیتن یاہو نہ صرف رخصت ہونے والے ہیں بلکہ مالی بدعنوانی کے الزام کے علاوہ ان پر سکیورٹی کی نااہلی کا بھی مقدمہ چلایا جائے گا۔
نتیجتاً اسرائیل کے خلاف بات کرنا ضروری نہیں، بلکہ نیتن یاہو کے خلاف سخت موقف اپنا کر اپنے عوام کو بھی راضی کیا جا سکتا ہے اور خطے میں بھی فلسطین کے حامیوں کی صف میں شامل ہوا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: فلسطینیوں کے پیسے سے ترکی اور اسرائیل کے مفادات پر مبنی منصوبہ
ترک وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے ڈیڑھ سال تک صیہونی حکومت کے ساتھ ترکی کے تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل پر اس وقت کام کیا اور اسے مکمل کیا جب وہ ترک انٹیلی جنس سروس کے سربراہ تھے اور اب جب کہ وہ سفارتی نظام کے سربراہ ہیں، ترکی اور صیہونیحکومت کے درمیان دوبارہ تعلقات میں خرابی کا امکان بہت کم اور ذہن سے دور ہے۔