منظم شیطانی مافیا(3)؛ تیل کی سرزمین میں غربت کا بول بالا

سعودی

🗓️

سچ خبریں:اگرچہ سعودی عرب دنیا کے ممالک میں سب سے زیادہ تیل کی فروخت کرتا ہے لیکن منظم بدعنوانی، خطے میں جنگ بندی اور غلط پالیسیوں کے نتیجے میں معاشی بحران کی کھائی میں ہے۔

حالیہ برسوں میں تخت کے قریب آنے کے بعد، سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے خود کو ایک اصلاح پسند کے طور پر پیش کرنے کی سرتوڑ کوشش کی ہے، یہ بہانہ کیا ہے کہ سعودی عرب کی روایتی روشیں ختم ہو چکی ہیں اور اب وہ اس ملک کے عوام کو ایک اصلاح پسند کے طور پر پیش کریں گے، آج کے بعد انہیں آزادی بیان اور آزادی عمل دونوں مسیر ہوں گی، وہ بڑے منصوبوں میں جدید یورپی زندگی کی مثالیں پیش کر کے اپنے آپ کو ایک نو لبرل کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش کر ہے لیکن اس حقیقت سے قطع نظر کہ آمرانہ طرز عمل ان کی روح کے ساتھ ملا ہوا ہے، ایک ایسا طرز عمل جو گزشتہ برسوں کے دوران ہر جگہ دیکھنے کو ملا ہے جیسے کی سزاؤں میں اضافہ ، سیاسی مخالفین کی پھانسی، مذہبی اور دینی اقلیتوں کی آزادیوں کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزی، غیر ملکی تارکین وطن، خواتین کے حقوق کی پامالی، اور بدعنوانی کا عام ہونا دیکھنے کو مل رہا ہے۔

دوسری جانب ریاض کے حکام نے اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد سعودی عرب میں اپنی غیر جمہوری حکمرانی کی بقا کے لیے مغربی طاقتوں کی حمایت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ وہابی اور تکفیری نظریات کو فروغ دینے کی بھرپور کوششوں پر رکھی ہے، اس نقطہ نظر کی بنیاد پر سعودی حکام دیگر علاقائی اور بین الاقوامی حکومتوں کے اندرونی معاملات میں وسیع پیمانے پر مداخلت کرتے ہیں یہاں تک کہ یمن سمیت بعض ملکوں میں جنگ بھی چھیڑ رکھی ہے،اس تجزیے میں ہم سعودی حکومت کی متضاد پالیسیوں کی جہتیں اور سعودی حکمرانوں کے طرز عمل میں انسانی اصولوں کی وسیع پیمانے پر پامالی کی تفصیلات کا جائزہ لیں گے۔

سعودی عرب میں غربت
یومیہ لاکھوں بیرل تیل کی فروخت، سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان اسلحے کی خریداری کے شعبے میں 460 بلین ڈالر کے ساتھ ساتھ مختلف شعبوں میں متعدد دو طرفہ معاہدوں کے علاوہ نیوم شہر کی تعمیر جیسے سعودی ولی عہد کے مثالی منصوبے وہ چیزیں ہیں جو پہلی نظر میں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ سعودی عرب اور اس ملک کے عوام ایک خوشحال اور امیر قوم ہیں، جہاں ان کی تمام سہولیات اور ضروریات فراہم کی جاتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلحے کے معاہدوں کی آڑ میں دیے جانے والے تحفے اور تحائف جنہیں سیاسی امور کے مبصرین سعودی حکمرانوں کی جانب سے اپنی آمریت کو برقرار رکھنے کے لیے امریکہ کو دیا جانے والا تاوان قرار دیتے ہیں،اس کے علاوہ پروپیگنڈے کے وہ منصوبے ہیں جن پر سعودی ولی عہد کئی سو ارب ڈالر خرچ کر چکے ہیں، انہیں ملکی سطح پر بڑے مالی مسائل کا سامنا ہے، یہ معاشی مسائل حالیہ برسوں میں تیل کی قیمتوں میں کمی اور یمن میں سعودی عرب کی ناکام جنگ کے بھاری اخراجات کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں اور غریب خاندانوں کے لیے طبقاتی فرق اور معاش کے بحران جیسے دیگر مظاہر کا سبب بنے ہیں۔

یہ اس حقیقت کے باوجود ہے جبکہ سعودی عرب کے سکیورٹی گھٹن کے ماحول اور اس ملک کے ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے اپنے اقتصادی منصوبوں کی مارکیٹنگ کرنے کی کوششوں کے نتیجے میں، یہاں تک کہ یہاں بے روزگاری اور غربت کے سرکاری اعداد وشمار کو قومی سلامتی کے خلاف ایک فعل سمجھا جاتا ہے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو حکومت کی جابرانہ پنجہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس سلسلے میں حالیہ برسوں میں اس ملک کے کم از کم تین میڈیا کارکنوں کو ایک فلم کی ریلیز کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔

2016 میں سعودی عرب کے پہلے بجٹ خسارے کے اعلان کے بعد سے، محمد بن سلمان کی سرکاری توجہ اخراجات میں کمی اور کفایت شعاری پر مرکوز ہے، جس کا ذکر سعودی عرب کے 2030 کے اقتصادی منصوبے میں بھی ہے لیکن اس منصوبے کی حقیقت سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ اقتصادی کفایت شعاری ہے جس کا مقصد سعودی شہزادوں کی اربوں کی آمدنی کو محدود کرنا نہیں ہے، بلکہ یہ سرگرمیاں ریاض کی گورننگ باڈی میں محمد بن سلمان کے مخالفین کی طاقت کو روکنے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ درمیانی اور کمزور طبقوں پر دباؤ بڑھانے کے لیے کی جاتی ہیں، اس کی دلیل یہ ہے کہ جس وقت محمد بن سلمان سے ملک میں پیسہ بچانے کی باتیں کر رہے تھے انہوں نے رٹز کارلٹن ہوٹل میں درجنوں سعودی شہزادوں کو گرفتار کیا تاکہ وہ جائیداد واپس کر سکیں جس کے سلسلہ میں ان کا دعویٰ ہے کہ ان شہزادوں نے قومی خزانے سے اپنے فائدے کے لیے خرچ کی، اسی وقت بن سلمان نصف ارب ڈالر ایک تفریحی کشتی یا ایک شاندار پینٹنگ خریدنے کے لئے صرف کرتے ہیں۔

الحیات اخبار نے حال ہی میں غربت، قرض، بیماری اور کرائے کے مسائل سے نبرد آزما ہونے والی ام محمد کی کہانی سنا کر سعودی عرب میں غربت کے کچھ گوشے دکھائے ہیں،یہ خاتون الاحساء صوبے کے ایک مشرقی دیہات میں رہتی ہیں جو کہتی ہیں کہ وہ اور ان کے بچے صرف پانی اور روٹی کھا سکتے ہیں،جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے کہ سعودی عرب میں وسیع پیمانے پر جابرانہ پالیسیوں کی وجہ سے اس ملک میں غربت کے مسئلے پر شائع شدہ رپورٹیں شاذ و نادر ہی شائع ہوتی ہیں اور یہ رپورٹیں بھی غیر سرکاری ذرائع سے تیار کی جاتی ہیں، ان ذرائع کا اندازہ ہے کہ سعودی عرب میں غریبوں کی تعداد 25 فیصد سے زیادہ ہے، یعنی اس ملک کی 20 ملین آبادی میں سے تقریباً 5 ملین لوگ غریب ہیں۔

2013 میں ورلڈ سینٹر فار ہیومن ڈویلپمنٹ کی رپورٹ میں یہ بھی ظاہر کیا گیا تھا کہ سعودی عرب انسانی ترقی کے اشاریہ میں 57 ویں نمبر پر ہے، حالانکہ اس وقت سعودیوں کے معاشی حالات یمن میں جنگ شروع ہونے اور مہنگائی کی وجہ سے بحران کا شکار نہیں تھے،اس حوالے سے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ اور برطانوی اخبار گارڈین نے تین سال قبل اپنی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ سعودی عرب میں کم از کم 2 سے 4 ملین افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں،اس ملک میں سماجی امور کی وزارت کے فراہم کردہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ 15 لاکھ سے زائد افراد سوشل سکیورٹی سروسز استعمال کرتے ہیں، ان اعدادوشمار کے مطابق غربت سے نمٹنے اور پسماندہ لوگوں کے لیے دیگر دلچسپی کے پروگراموں کے بجٹ کے اشارے اس سال کے کل اخراجات کا 3.3 فیصد ہیں جو 855 ارب سعودی ریال بنتے ہیں۔

واضح رہے کہ سعودی خواتین کے لیے مناسب ثقافتی ترقی کے فقدان کے سائے میں، خواتین کی غربت کا رجحان بھی سعودی عرب میں غربت کے اہم ترین اشاریوں میں سے ایک بن گیا ہے، اس مسئلے کے سب سے اہم عوامل ناخواندگی، ناقص تعلیم اور خواتین کے لئے ملازمت کے محدود مواقع ہیں،تحقیق کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ 20 سے 50 سال کی عمر کی صرف 10 فیصد خواتین ہی اپنے لیے نوکری تلاش کر سکتی ہیں اور یہ ملازمتیں بھی پہلے سے طے شدہ ہوتی ہیں، سعودی عرب نے ستمبر 2022 میں باضابطہ طور پر اعلان کیا کہ اس ملک میں تقریباً 10 ملین افراد خصوصی سماجی معاونت کے پروگراموں سے مستفید ہوں گے، یہ وہ لوگ ہیں جو سعودی عرب کی نئی اقتصادی پالیسیوں اور ملک میں سبسڈی کو بنیادی اشیا سے ہٹانے کے نتیجے میں ان اشیا کی قیمتوں میں ڈرامائی اضافہ ہوا جس سے خوراک اور توانائی کے کیریئرز کی قیمتیں بھی متاثر ہوئیں۔

سعودی عرب میں غربت کے بارے میں بین الاقوامی دستاویزات
سعودی عرب کے سرکاری داخلی حلقوں کی خاموشی کے سائے میں بین الاقوامی اعداد و شمار اور رپورٹس اس ملک کے عام لوگوں کی انتہائی غربت اور پیچیدہ معاشی صورتحال کو کسی حد تک ظاہر کر سکتی ہیں، خواتین کے حقوق کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے فلپ السٹن کا کہنا ہے کہ تصور کے برعکس سعودی عرب میں بہت سے غریب علاقے ہیں، انہوں نے غیر مستحکم اور غیر مربوط پروگراموں کی وجہ سے غربت سے لڑنے کے لیے بنائی جانے والی پالیسیوں کے غیر موثر ہونے کو ان لوگوں کے لیے بنیادی وجہ قرار دیا جنہیں جامع سماجی مدد کی اشد ضرورت ہے۔

یورپی سعودی ہیومن رائٹس آرگنائزیشن نے گزشتہ موسم گرما میں ایک بیان میں اعلان کیا تھا کہ تمام معاملات میں سعودی حکومت کے تعامل میں شفافیت کے فقدان کی وجہ سے اس ملک میں حقائق کا پتہ لگانا ناممکن ہو گیا ہے، تاہم سعودی حکومت جس طرح سے بات چیت کرتی ہے۔ اس ملک میں غربت کا معاملہ تشویشناک حد تک بڑھ گیا ہے۔

سعودی عرب کی غربت کی وجہ کرپشن
سعودی ماہر قانون ولید ابوالخیر کا خیال ہے کہ سعودی عرب میں غربت کی بنیادی وجہ اس ملک میں وسیع پیمانے پر پائی جانے والی بدعنوانی ہے کیونکہ دنیا کے سب سے بڑے تیل پیدا کرنے والے اور برآمد کنندہ کا اعزاز رکھنے والے ملک کے لیے اتنا غریب ہونا معقول نہیں،انہوں نے زور دے کر کہا کہ ایک خاص گروہ ہے جو اس ملک کی دولت کو استعمال کرتا ہے جب کہ قوم کی اکثریت کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کچھ نہیں ملتا،انہوں نے سعودی معاشرے کے عام لوگوں اور اس کی حکومت کے درمیان وسیع خلیج کے بارے میں آگاہ کیا اور کہا کہ ہم ان لوگوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں جن کا نام فوربس میگزین نے دنیا کے امیر ترین افراد میں شامل کیا ہے لیکن اس انہوں نے طاقت اور تشدد کے ذریعےاس ملک کی سیاسی حکومت نے تمام سرکاری وسائل پر قبضہ کیا ہوا ہے جنہیں وہ بغیر کسی پوچھ تاچھ اور حساب کتاب کے استعمال کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ امریکی فیصلہ سازوں کو مطمئن کرنے کے لیے سعودی حکام اپنی غیر متوازن پولیسیوں پر اربوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں یہی وجہ ہے خود امریکی انہیں دودھ دینے والی گائے کہتے ہیں جبکہ سعودی عرب کے مشکل معاشی حالات میں اس ملک کے حکام قومی خزانے کو اقتدار کی ہوس پوری کرنے اور اپنے تخت کو برقرار رکھنے کی کوشش میں نیز خطے میں مزید جارحیت کے لیے امریکہ کے سامنے پیش کر رہے ہیں، ان کی یہ پالیسیاں سعودی عوام کے لیے دو دھاری تلوار کی طرح ہیں جہاں ایک طرف انہیں دباؤ کا سامنا ہے اور دوسری طرف سرحدوں پر جنگ کی وجہ سے پیش آنے والی مشکلات اور اس کے اخراجات انہیں برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔

مشہور خبریں۔

اسرائیل کا غزہ میں فلسطینیوں کو اجتماعی سزا دینے کا کوئی جواز نہیں:اقوام متحدہ

🗓️ 21 مارچ 2024سچ خبریں: اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے اپنے خطاب میں صیہونی

صہیونیوں کا اصلی ہدف مسجد اقصیٰ کو تباہ کرنا ہے: انصار اللہ

🗓️ 31 مئی 2022سچ خبریں:  یمن کی انصار اللہ تحریک کے رہنما سید عبدالمالک بدرالدین

کیا اردگان ترکی میں نئی بغاوت سے خوفزدہ ہیں؟

🗓️ 2 فروری 2025سچ خبریں: ترکی کے پانچ فوجی افسروں کی برطرفی ملک میں حالیہ

رانا شمیم کا نام ایگزیٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کے لیے اجلاس ہوگا: شیخ رشید

🗓️ 8 دسمبر 2021اسلام آباد(سچ خبریں) وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ

اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکومت کو ٹیکس نان فائلرز کی موبائل سمز بلاک کرنے سے روک دیا

🗓️ 14 مئی 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکومت کے نان ٹیکس

صیہونی، سعودی،اماراتی اتحاد کا قیام

🗓️ 23 فروری 2022سچ خبریں:صیہونی ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا ہے کہ خود کش ڈرون

اسرائیل اب تک غزہ کے عوام پر کتنا دھماکہ خیز مواد گرا چکا ہے؟ بین الاقوامی تنظیم کی زبانی

🗓️ 3 نومبر 2023سچ خبریں: بین الاقوامی ہیومن رائٹس واچ نے اعلان کیا ہے کہ

مسجد الحرام کے خطیب کو 10 سال قید کی سزا

🗓️ 25 اگست 2022سچ خبریں:انسانی حقوق کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سعودی حکام کی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے