سچ خبریں: عراق کے سیاسی امور کے ماہر نے مغربی ایشیائی خطے میں امریکہ کے نئے خطرناک دہشتگردانہ منصوبے کا انکشاف کیا ہے۔
عراقی المعلومہ خبر رساں ایجنسی نے عباس الزیدی کے لکھے ہوئے معنی خیز کالم میں مغربی ایشیائی خطے میں امریکہ کے نئے منظر نامے کا انکشاف کیا ہے،ایک جامع رپورٹ میں عراقی ماہر نے مغربی ایشیائی خطے کے بعض سرکردہ عرب حکمرانوں کی ملی بھگت سے واشنگٹن کے نئے منصوبے کو شواہد کے ساتھ بیان کیا ہے:
یہ بھی پڑھیں: بائیڈن حکومت کی مغربی ایشیا میں زیادہ دخالت کی وجہ ؟
ان دنوں، فیلڈ رپورٹس دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ کے بڑھتے ہوئے خطرے اور شام میں غیر قانونی ہتھیاروں کے داخلے کے بہانے میں اس ملک اردنی فوج کے قریب آنے والے آپریشن کی نشاندہی کرتی ہیں۔
المعلومہ کی رپورٹ کے مطابق شامی سرزمین پر اردنی فوج کے حملے کا بہانہ شام کے جنوبی شہر السویداء کے محور سے ہو گا، جہاں حالیہ ہفتوں میں بدامنی اور مظاہرے دیکھنے میں آئے ہیں جن کا شبہ ہے کہ انہیں امریکہ کی طرف سے اکسایا گیا ہے،اس رپورٹ کے مطابق اردنی فوج اس آپریشن کو سی آئی اے کی پس پردہ مندرجہ ذیل وجوہات اور محرکات کی بناء پر انجام دے گی۔
شام پر غیر قانونی حملے میں اردن کے پس پردہ مقاصد:
1۔ گرتی ہوئی معیشت اور بڑھتے ہوئے بحرانوں سے اردن کی بادشاہت کو خطرہ ہے۔
2۔ اس ملک میں رہنے والی فلسطینی آبادی کے بارے میں اردن کا شدید خوف
3۔ جنوبی لبنان کے عین الحلوہ کیمپ میں فلسطینی گروہوں کے درمیان مسلح تصادم کے واقعات کے اردن کی سرزمین تک پھیلنے پر تشویش
4۔ چین اور امریکہ کے درمیان عالمی مقابلے میں اس منصوبے کے متبادل اقتصادی حل تلاش کرنے کی کوشش کرنا
5۔ ریاض کے ساتھ تعلقات اور اس ملک کی اقتصادی امداد ترک کرنے کے بہانے خلیج فارس کے عرب ممالک اور امریکہ کی طرف سے اردن کو اقتصادی مراعاتی پیکج کی تجویز
6۔ تاہم شامی سرزمین پر حملے کا سب سے اہم مقصد شام کی سلامتی کو تباہ کرنا، مسجد اقصیٰ اور مغربی کنارے کی مذہبی مراکز کی ذمہ داری سے بھاگنا نیز شام میں تل ابیب کی دشمنانہ پالیسیوں کے نفاذ کی بنیاد ڈالنا ہے۔
شام میں اردن کی مہم کے لیے درکار اوزار اور سامان
1۔ اردن کی مسلح افواج۔
2۔ ایک عرب اتحاد جس میں مصر کی فوج اور سعودی عرب کی قیادت میں خلیج فارس کے ممالک کی محدود تعداد میں فوج شامل ہے۔
3۔ یمن، سوڈان اور دیگر سے مسلح کرائے کے گروہوں کو منظم کیا جائے گا۔
شام میں اردن کی مہم کے اقتصادی اہداف:
شام کے جنوب کو غیر مستحکم کرنے کا منظر نامہ بنیادی طور پر خطے میں چین کے اقتصادی منصوبے کا مقابلہ کرنے اور اس پر قابو پانے کے لیے ہے اور دوسری طرف سعودی عرب کی قیادت میں خطے میں امریکی اقتصادی منصوبے پر غلبہ حاصل کرنا ہے، کیونکہ یورپ تک جانے والے ہندوستان کی اقتصادی راہداری جس کے بارے میں حال ہی میں جی 20 گروپ کی طرف سے چین پر قابو پانے کے لیے بات چیت کی گئی ہے، یہ نئی اقتصادی راہداری ہندوستان سے شروع ہوگی اور سعودی عرب سے ہوتی ہوئی اردن، اسرائیل تک جائے گی اور آخر میں یورپی براعظم کے ساحلوں تک پہنچے گی، تاہم یقیناً بحیرہ احمر کے ساتھ اردن کی عقبہ بندرگاہ اس راہداری کا حصہ نہیں ہوگی۔
امریکہ اور اسرائیل کے مذموم مناظر کے پیچھے محرکات
1۔ شام میں واشنگٹن اور تل ابیب کے ناپاک عزائم کی کم سے کم لاگت پر کامیابی
2۔ ریاض اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی حتمی بنیاد ڈالنا
3۔ اسرائیل، امریکہ اور خلیج فارس کے عرب ممالک کے سہ رخی فوجی سکیورٹی اتحاد کے تناظر کا عملی احساس
4۔ مشرقی شام اور شامات اور خلیج فارس کے علاقے میں تعینات امریکی فوجی دستوں کی حفاظت کو یقینی بنانا
5۔ مغربی کنارے کے رہائشیوں اور آخر کار غزہ کے باشندوں کی جبری نقل مکانی کے لیے متبادل وطن کے حصول کی بنیاد ڈالنا۔
6۔ عراق کی سرحد سے لبنان تک مزاحمت کے محور کے درمیان امدادی لائنوں کو مکمل بند کرنا
خطے میں نئے امریکی سیاسی مساوات میں سعودی عزائم اور اہداف
1۔ بحیرہ احمر اور تزویراتی آبنائے باب المندب پر مکمل سیاسی اور فوجی کنٹرول
2۔ بحیرہ روم کو یورپ سے ملانے والے بڑے سمندری پل کے منصوبے کی تکمیل، جو ریاض کو اردن کے علاقائی کوریڈور سے اسرائیل ، بحیرہ روم اور یورپ سے جوڑے گا۔
3۔ اپنے تمام روایتی حریفوں بشمول ترکی، متحدہ عرب امارات اور قطر کو روکنا
4۔ عراق میں ریاض کے خصوصی منصوبوں کا نفاذ
5۔ خطے میں اپنا روایتی غلبہ اور اثر و رسوخ دوبارہ حاصل کرنا اور ایران کو روکنا نیز جوہری ٹیکنالوجی والے ممالک کے کلب میں رکنیت کے ذریعے زیادہ سیاسی اور اقتصادی فوائد حاصل کرنا۔
خطے میں امریکہ کے نئے منظر نامے میں اردن کا ایڈونچر
عراقی تجزیہ نگار کے مطابق جیسا کہ موساد کے سابق سربراہ افرائیم ہالوی نے اردن کے بارے میں کہا تھا کہ ملٹری سکیورٹی اور انٹیلی جنس سروسز سمیت امان کے تمام اہم ادارے تل ابیب کے ہاتھ میں ہیں۔
المعلومہ کے مطابق آج اردن کے حکمران نظام کے پاس ہتھیار ڈالنے اور امریکہ اور تل ابیب کے مذموم منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے لہذا قدرتی طور پر وہ اس امریکی مہم جوئی اور سازش کا پہلا شکار ہوگا۔
مزید پڑھیں: خطے میں امریکہ کا نیا اشتعال انگیز قدم
آخر میں معروف سیاسی ماہر واشنگٹن اور تل ابیب کی فعالیت کے ساتھ خطے کے مستقبل کے تناظر کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جو کچھ اب خطے میں واشنگٹن کے نئے منظر نامے کا ایک گوشہ بن کر ابھر رہا ہے وہ روس، چین اور ان کے اتحادیوں کے مقابلے میں وائٹ ہاؤس کی پہیلی ہے جبکہ آخر میں ماورائے علاقائی طاقتوں اور امریکہ اور تل ابیب کی سازشوں کے درمیان اس عالمی مہم جوئی کا شکار ایک بار پھر عرب ممالک ہوں گے جس کی ابتدا سعودی عرب، اردن اور پھر خطے کے دیگر عرب ممالک ہوں گے۔