سچ خبریں:عبدالباری عطوان نے اردن کی بجلی اور مصری گیس کے شام سے لبنان جانے کے لیے لبنان کی جانب سےدی جانے والی درخواست کےشامی حکومت قبول کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے نے لکھاکہ خلیج فارس کے بیشتر ممالک جو تیل اور گیس کے سمندر پربیٹھے ہوئے ہیں ، لبنان میں اپنے بھائیوں کے دکھوں پر صرف تماشائی اور خاموش رہے۔
شامی حکومت نے کل مصری گیس اور اردنی بجلی کو شام کی سرزمین کے ذریعے لبنان میں منتقل کرنے کی اس ملک کی درخواست پر اتفاق کیا، شام کے دارالحکومت دمشق نے ہفتے کے روز شام کے بحران اور خانہ جنگی کے تقریبا ایک دہائی کے بعد لبنانی اور شامی حکام کے درمیان بے مثال ملاقاتوں کا مشاہدہ کیا، لبنان اور شام کی سپریم کونسل کے سکریٹری جنرل نصری خوری نے اعلان کیا کہ دمشق نے شام کی سرزمین کے ذریعے مصر سے گیس اور اردن سے بجلی لبنان میں منتقلی کی اجازت کے لیے لبنان کی درخواست سے اتفاق کیا اور کہاکہ مصری گیس اور اردنی بجلی لبنان میں شام کے علاقے سےمنتقل ہوگی نیز شام اس درخواست کا خیرمقدم کرتا ہے اور ضروری اجازت نامے جاری کرنے کے لیے تیار ہے۔
دونوں فریقوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ دونوں ممالک کی ایک مشترکہ ٹیم مسئلے کے تکنیکی پہلوؤں کا جائزہ لے گی،عرب دنیا کے تجزیہ کار اور الیکٹرانک اخبار رائے الیوم کے ایڈیٹر عبدالباری عطوان نے اس بارے میں لکھا ہےکہ ہمیں کیوں یقین ہے کہ اردن کی بجلی اور مصری گیس کی لبنانی عوام کو منتقلی اور اس کے بحران سے نجات امریکہ کی ایک چھوٹی شکست اورمستقبل میں ایک عظیم شکست کا پیش خیمہ ہے؟ وہ لکھتے ہیں کہ شام نے لبنانی وفد کی درخواست پر جو شام کے دورے پر ہے ، مصری گیس اور اردن کی بجلی شام کی سرزمین سے لبنان میں منتقل کرنے کی شرائط پر اتفاق کرکے لبنانی عوام کومعاشی بحران کا سامنا کرنے سے بچالیا ہے جو حقیقت میں اس ملک کی عظمت کوثابت کرتا ہے۔
عطوان نے مزید لکھا کہ لبنانی ایندھن کی کمی کی وجہ سے تقریبا ہمیشہ بجلی سے محروم رہتے ہیں جو ان کے لیے ایک مشکل بحران بن چکا ہے جس کی وجہ سے ہسپتال اور بیکریوں کی بندش اور ان کی روز مرہ کی زندگی میں خلل پڑتا ہے، تجزیہ کار نے لکھاکہ ہمیں لبنان کو بچانے کے لیے ایرانی تیل اور گیس کی طرف لبنانی حزب اللہ کے رہنما سید حسن نصراللہ کی جرات مندانہ موقف پر توجہ دینی چاہیے ،جنہوں نے امریکہ اور اسرائیل کو چیلنج کیا اور ایران سے نکلنے کے بعدتیل کے ٹینکروں کی مضبوط حمایت پر زور دیا ۔
عطوان نے کہا کہ لبنانی حزب اللہ کے سکریٹری جنرل کے موقف کی وجہ سے بیروت میں امریکی سفیر ڈوروتی زیا جو لبنان کے بارے میں فیصلہ کر رہے تھے ، کو پیچھے ہٹنا پڑا اور انھوں نے اس کا متبادل تلاش کرنے کے لیےاردن اور مصر کا رخ کیا۔