🗓️
سچ خبریں: ایک ممتاز فلسطینی تجزیہ نگار نے کہا کہ صیہونیوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے والی حکومتوں کے ابتر حالات سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور سعودی عرب کو بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اس سمجھوتے سے انہیں کچھ حاصل ہونے والا نہیں لہذ ہمیں امید ہے کہ سعودی حکام اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں گے۔
عرب دنیا کے ممتاز تجزیہ نگار اور انٹرریجنل اخبار رائے الیوم کے ایڈیٹر عبدالباری عطوان نے اپنے نئے کالم میں فلسطین کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کی کوشش پر مبنی قابض حکومت کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے حالیہ اقدام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں نیتن یاہو کی تقریر کے دوران اپنے اور اپنے تاریخی اور اسلامی ورثے کا احترام کرنے والے پرانے دور کے عرب موجود ہوتے تو وہ فوراً اقوام متحدہ کی عمارت سے نکل جاتے،جہاں قابض حکومت کے وزیراعظم نے نئے مشرق وسطیٰ کے نام سے ایک نقشے کی نقاب کشائی کی جس میں فلسطین کو شامل نہیں کیا گیا،عطوان نے کہا کہ آج ہم تاریخ کے بدترین دور میں جی رہے ہیں اور بہت سے عرب حکمران پانی کی مانند ہیں جس کا رنگ، ذائقہ یا بو نہیں ہے ، ان میں ذرا سا بھی وقار نہیں ہے اور نہ ہی ان کا اپنی شناخت اور اصلیت سے کوئی ہے۔
فلسطین کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کی انتہائی دائیں بازو کی صہیونی سازش
عبدالباری عطوان نے مزید کہا کہ نیتن یاہو کا غرور اور گستاخی حد سے گزر گئی اور وہ جسے صہیونی آباد کاروں نے مسترد کر دیا اور ان کے لیے نفرت انگیز شخصیت ہیں، اقوام متحدہ میں ایسے تقریر کر رہے جیسے عرب خطے کے موجودہ حکمران ہیں اور اس خطے کے لیے فیصلے کر سکتے ہیں، اس کے نقشے کھینچ کر عربوں کی قسمت اور مستقبل کا تعین کر رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی صیہونی دوستی ،کون فائدے میں ، کون گھاٹے میں ؟
انہوں نے کہا کہ یہ نیتن یاہو وہی ہے جو شبعا کے میدانوں میں حزب اللہ کے خیموں کو گرانے یا غزہ کی پٹی پر حملہ کرنے کے لیے ٹینک بھیجنے اور بیروت میں قتل کا مقدمہ چلانے کی ہمت نہیں رکھتا کیونکہ وہ نتائج سے ڈرتا ہے۔
اس کالم میں آیا ہے کہ نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کے پوڈیم سے نئے مشرق وسطیٰ جو نقشہ پیش کیا اس میں سمجھوتہ کرنے والے ممالک جیسے مصر، اردن، سوڈان، متحدہ عرب امارات، بحرین کے ساتھ ساتھ وہ ممالک بھی شامل ہیں جو سعودی عرب کی طرح قابض حکومت کے ساتھ تعلقات معمول پر آنے کے راستے پر ہیں،ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نقشے میں عراق، شام، یمن، لبنان، سلطنت عمان وغیرہ جیسے عظیم اور معزز عرب ممالک کے نام جو صیہونیوں کے ساتھ ہر طرح کے تعلقات کو مسترد کرتے ہیں، نہیں ہیں،یہ نقشہ نہیں بلکہ یہ ان ممالک کی قوموں اور حکمرانوں کے سینے پر قومی غیرت کا تمغہ ہے نیز نیتن یاہو کا نسل پرستانہ اور دہشت گردانہ عزائم کو ظاہر کرتا ہے۔
اس ممتاز عرب تجزیہ کار نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جب ہم صیہونیوں کے منصوبوں کی بات کرتے ہیں تو ہمیں فوراً نیتن یاہو کے فاشسٹ اور نسل پرست شاگرد اور ان کی انتہائی دائیں بازو کی کابینہ کے وزیر خزانہ بیزلیل اسموٹریچ کے منصوبہ یاد آتا ہے۔
یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل پیرس میں ایک کانفرنس میں اسموٹریچ نے ایک نقشہ دکھایا جس میں پورے مغربی کنارے اور اردن کو صیہونی حکومت کے زیر قبضہ زمینوں میں شامل کیا گیا تھا اور ممکن ہے کہ مستقبل میں مصر حتیٰ مکہ اور مدینہ کو بھی اس میں شامل کیا جائے اس لیے کہ صہیونی عرب سرزمین کو یہودیوں کا حصہ سمجھتے ہیں۔
واضح رہے کہ نیتن یاہو نے ان تمام عرب حکومتوں کو نظرانداز کیا جنہوں نے فلسطینی قوم کے مطالبات کی تکمیل اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے تل ابیب کے ساتھ معمول پر لانے کی شرط قرار دیا، انہیں اس بات پر فخر ہے کہ انہوں نے فلسطین اور فلسطینیوں کے حقوق پر توجہ دیے بغیر عربوں کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے معاہدے کیے نیز اب کوشش کر رہے ہیں کہ عرب ممالک صیہونی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے سمجھوتے کا معاہدہ کرنے کے لیے مسئلہ فلسطین کو درمیان میں نہ لائیں۔
عرب قومیں حملہ آوروں سے نفرت کرتی ہیں
اس کالم کے مطابق صرف فلسطینیوں نے ہی عرب ممالک اور قابض حکومت کے درمیان تعلقات معمول کے کسی معاہدے کو مسترد کیا ہے بلکہ ان عظیم عرب ممالک کی عوام نے بھی اسے مسترد کر دیا ہے اور قابضوں کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات معمول پر لانے کو غداری سمجھتے ہیں، تاہم جن حکمرانوں نے صیہونی دشمن کے ساتھ ایسے معاہدے کیے ہیں وہ کسی طور پر بھی اپنی قوموں کے نمائندے نہیں ہیں، بلکہ یہ قومیں ان کو بھی مسترد کرتی ہیں، قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ کے دوران ہم نے دیکھا کہ کس طرح عرب اقوام نے صہیونیوں سے نفرت کا اظہار کیا اور ان کی تذلیل کی۔
اس کے علاوہ صیہونی حکومت کی حمایت کرنے والے امریکن مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے سروے کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ صرف ایک سال کے دوران عرب ممالک میں بحرین اور متحدہ عرب امارات کے صیہونیوں کے ساتھ ت تعلقات معمول پر لانے کے معاہدے کے حامیوں کی تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے۔
اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا سعودی عرب کو کوئی فائدہ نہیں
عبدالباری عطوان نے واضح کیا کہ نیتن یاہو جہاں سمجھوتے کے معاہدوں میں مسئلہ فلسطین کا ذکر نہ ہونے کی کوشش کر رہے ہیں وہیں سعودی عرب کے جوہری ٹیکنالوجی کے حصول کی اجازت بھی نہ دینے جانے کی بات کرتے ہیں،اپنے حالیہ پریس انٹرویوز میں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے بدلے سعودی عرب کو جوہری ٹیکنالوجی سے لیس کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ نیتن یاہو بھول گئے ہیں کہ اسرائیل کے پاس 200 جوہری وار ہیڈز ہیں اور وہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ماہرین کو ڈیمونا ری ایکٹر تک جانے کی اجازت نہیں دیتا،نیتن یاہو کون ہے جو خود کو عربوں کے لیے فیصلے کرنے اور اپنی شرائط سعودی عرب پر مسلط کرنے کی اجازت دیتا ہے، جس نے نمایاں اقتصادی ترقی حاصل کی ہے؟
انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ سعودی عرب غاصب حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر نہیں لائے گا اور اس عظیم انعام کو صیہونیوں کی خدمت میں پیش نہیں کرے گا نیز امریکیوں اور اسرائیلیوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے گا کیونکہ سعودی عرب صیہونی حکومت سے زیادہ بڑا اور طاقتور ہے جب کہ صیہونی حکومت تیزی سے اپنے خاتمے اور تباہی کے قریب پہنچ رہی ہے اور اس وقت اسے مزاحمت اور فلسطینی قوم کی طرف سے ایک بہت بڑا وجودی خطرہ ہے لہذا ایک ناکام اور فاشسٹ حکومت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے سے جو عرب سرزمین پر قابض ہے اور اس کے خاتمے کا خطرہ ہے جبکہ مغرب اور امریکہ اس کے بھاری بوجھ سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں، سعودی عرب کو نہ صرف یہ کہ کچھ حاصل نہیں ہوگا بلکہ اس کی سلامتی اور استحکام کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے اور عرب اور اسلامی دنیا میں اس کی پوزیشن کو کمزور کرسکتا ہے۔
مزید پڑھیں: سعودی صیہونی تعلقات کی صورتحال؛سعودی وزیرخارجہ کی زبانی
کالم کے آخر میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ قابض حکومت بہت سے مزاحمتی میزائلوں اور ڈرونز میں گھری ہوئی ہے ،اس کی کوئی اندرونی اور بیرونی سلامتی میں استحکام نہیں ہے ، اس کے بڑے سے بڑے مفکرین اور حکام کو بھی یہ امید نہیں ہے کہ یہ جعلی حکومت اسّی سال تک پہنچے گی، ماضی میں عرب حکومتیں اسی وجہ سے تل ابیب جایا کرتی تھیں اور اس حکومت سے سمجھوتہ کرنے کا مطالبہ کرتی تھیں، یہ سوچ کر کہ اسرائیل امریکہ کے دل میں داخل ہونے اور اس کی حمایت حاصل کرنے کا دروازہ ہے لیکن آج سب کچھ الٹا ہوگیا ہے، جو بائیڈن کو ہی دیکھ لیجئے جنہوں نے سعودی عرب کو سزا دینے اور اسے دنیا میں تنہا کرنے کا وعدہ کیا تھا،اب اس ملک سے صیہونیوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی بھیک مانگ رہے ہیں،آخر میں شاید عرب سمجھوتہ کرنے والے ممالک، جنہوں نے امریکہ کا دامن تھام رکھا ہے، کے ابتر حالات سے سبق سیکھنا چاہیے،آخر عرب کب جاگنا چاہیں گے؟
مشہور خبریں۔
حکومت نے پٹرول اور ڈیزل سمیت دوسری مصنوعات میں کمی کا اعلان کر دیا
🗓️ 16 اپریل 2021اسلام آباد(سچ خبریں) وزیر خزانہ حماد اظہر نے پیٹرول اور ڈیزل کی
اپریل
پی ٹی آئی قتل اور ریپ کا ڈراما رچانا چاہتی تھی جس کی آڈیو پکڑی گئی، رانا ثنا اللہ
🗓️ 28 مئی 2023اسلام آباد:(سچ خبریں) وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے
مئی
پاکستان کو عظیم راستے پر گامزن کرنے کےلئے کوشاں ہیں: وزیر اعظم
🗓️ 31 دسمبر 2021لاہور(سچ خبریں) وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو
دسمبر
غزہ میں صیہونی فوجیوں کی قتل گاہ کہاں ہے؟
🗓️ 10 دسمبر 2023سچ خبریں: صیہونی صحافی نے غزہ کی پٹی کے خطرناک ترین علاقوں
دسمبر
کیا اسرائیل میں ایران جیسے بڑے ملک پر وسیع حملہ کرنے کی طاقت ہے؟روسی تجزیہ کاروں کی رائے
🗓️ 27 اکتوبر 2024سچ خبریں:روسی تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی ہے کہ صہیونی حکومت کے
اکتوبر
عوام اور افواج نے وطن کی حفاظت میں کردار ادا کیا ہے:عارف علوی
🗓️ 26 مارچ 2021اسلام آباد(سچ خبریں) صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہاہے کہ عوام
مارچ
اسلامی جہاد کے کمانڈر کو قتل کرنے کے لیے امریکی اسمارٹ بم کیا تھا؟
🗓️ 20 اگست 2022سچ خبریں: غزہ کی پٹی میں حالیہ تین روزہ جنگ 14-16
اگست
آئی ایم ایف بورڈ کا قرض پروگرام پر مکمل عملدرآمد، ٹیکس کا دائرہ وسیع کرنے پر زور
🗓️ 29 ستمبر 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ نے
ستمبر