سچ خبریں:سعودی وزیر خارجہ ایک اہم پیغام کے ساتھ تہران آرہے ہیں اور تجزیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان نئے تعلقات سکیورٹی معاہدوں اور اقتصادی تعلقات سے مزید مضبوط ہوں گے۔
سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان کے دورہ تہران کی خبر عالمی ذرائع ابلاغ بالخصوص عرب دنیا میں خبروں اور رپورٹوں کا ایک اہم موضوع بن چکی ہے نیز اس سفر کے اہداف اور پیغامات کے بارے میں تجزیے شروع ہو چکے ہیں، اخبار رائے الیوم کے لندن ایڈیشن کی ویب سائٹ نے یہ خبر شائع کی اور لکھا کہ رائے الیوم کو لبنان میں اپنے قریبی سیاسی ذرائع سے اطلاع ملی کہ سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان آل سعود عنقریب تہران کا دورہ کریں گے، وہ سلمان بن عبدالعزیز کی طرف سے ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی کو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی ترقی کے حوالے سے پیغام بھی پہنچائیں گے، بن فرحان اس سفر کے دوران ایران کے صدر اور دیگر ایرانی حکام سے ملاقات کریں گے اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی ترقی پر تبادلہ خیال کریں گے۔
دو مخلصانہ ملاقاتیں؛ تعمیری گفتگو کی بنیاد
ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے معاہدے کے بعد سے ایران اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ کی دو ملاقاتیں ہو چکی ہیں،ایک بیجنگ میں اور دوسری کیپ ٹاؤن میں،امیر عبداللہی اور بن فرحان برکس وزرائے خارجہ اور برکس دوستوں کے اجلاس میں شرکت کے لیے جنوبی افریقہ گئے ہیں جہاں انہوں نے اجلاس کے موقع پر ایک دوسرے سے ملاقات اور گفتگو کی، اس ملاقات اور بیجنگ میں ان کی پہلی ملاقات دونوں پر خوشگوار ماحول کا غلبہ رہا اور سوالات اور ماحول کے برعکس فریقین نے تہران-ریاض سفارتی معاہدے کے نفاذ کے اقدامات سمیت اپنے درمیان اہم ترین امور پر تبادلہ خیال کیا۔
عربوں کے نزیک امن کا مطلب
ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات بحال کرنے کے معاہدے کے قیام کے بعد سے اب تک سعودی عرب سے وابستہ میڈیا سمیت بہت سے عرب میڈیا کا ادب اور انداز بدل چکا ہے،ایک ایسی تبدیلی جو بلاشبہ مکمل طور پر سیاسی مقاصد اور خطے کے مستقبل کی ضرورت کے فریم ورک کے اندر ہے، تہران-ریاض سمجھوتے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اور اس عمل کے جاری رہنے کی امید ظاہر کرتے ہوئے، علاقائی میڈیا نے ان سیاسی صورتحال پر اپنے تجزیوں اور ردعمل میں ظاہر کیا کہ وہ اس عمل سے کتنا مطمئن ہے،اس مسئلے کی ایک واضح مثال مصری خبروں کی تجزیاتی سائٹ عربی21 کا اس معاہدے سے متعلق طریقہ تھا، اس ڈیٹا بیس نے ایک تجزیاتی رپورٹ شائع کی جس کا عنوان تھا "امن کی تلاش، چاہے وہ چین میں ہی کیوں نہ ہو” اور کسی نہ کسی طرح عرب تجزیہ کاروں کی طرف سے اس عمل کی طرف داری کا اظہار کیا۔
مشترکہ سلامتی کے معنی اور تفہیم
ایک اہم ترین مسئلہ جس کی وجہ سے خطے کے عرب ممالک بشمول سعودی عرب ایک وسیع فریم ورک میں ہم آہنگی کی طرف بڑھ رہے ہیں، جس میں ایران اور مغربی ایشیا میں اس کے اتحادی بھی شامل ہیں، اس اہم اصول پر یقین ہے امن باہر سے نہیں لایا جا سکتا، مغربی ایشیا کی صورتحال کو سنبھالنے میں وائٹ ہاؤس کے حکام کی کمزوری کے سائے میں امریکی عرب تعلقات کے کمزور ہونے نے اس ادراک کے نتیجے کو عملی شکل دے دی اور وہ سب کچھ ہو گیا جو تل ابیب اور واشنگٹن کے مطابق نہیں ہونا چاہیے تھا۔
امریکہ کو نئی مساوات سے ہٹانا
اس صورتحال کے عین عین وقت پر عالمی میڈیا نے اعلان کیا کہ امریکی وزیر خارجہ اینتھونی بلنکن مقبوضہ فلسطین کا اپنا دورہ منسوخ کرتے ہوئے منگل (6 جون) کو سعودی عرب روانہ ہوں گے،فرانس پریس نے اطلاع دی ہے کہ امریکی وزیر خارجہ اس ہفتے کے وسط میں سعودی عرب جا رہے ہیں، جہاں اس کے ساتھ واشنگٹن کے تعلقات اس وقت نازک مرحلے میں ہیں جبکہ عرب میڈیا کے لیے یہ نازک مرحلہ ہے اور سعودی عرب کی اپنے سابق اتحادی امریکہ سے فیصلے کرنے میں آزادی کا مرحلہ ہے، اس لیے کہ اب عرب امریکہ تعلقات کا عمل اس طرح آگے بڑھ چکا ہے کہ عرب دارالحکومتیں دوسرے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کے لیے نہ صرف وائٹ ہاؤس کی اجازت اور رضامندی کو ضروری نہیں سمجھتے بلکہ وہ اپنے اتحاد کو متنوع بنانے کے لیے کوشاں ہیں، امریکا کا ساتھ نہ دینے کا تجربہ ریاض اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے لیے سبق آموز ثابت ہوا،اب ایسا لگتا ہے کہ زیرو پرابلم کی پالیسی کے بعد سعودی عرب اقتصادی اتحاد کی توسیع کا رخ کرے گا۔ ریاض اور تہران کے درمیان تعلقات اقتصادی جہتوں سے خالی نہیں ہوں گے اور جیسا کہ "الشرق الاوسط” اور "الریاض” جیسے میڈیا نے بھی خبر دی ہے کہ ایران اور سعودی اقتصادی وفود مستقبل قریب میں ملاقاتیں کریں گے تاکہ سیاسی تعلقات کی نوعیت کو مضبوط کیا جا سکے۔