سچ خبریں:جاسوسوں کی موجودگی اور صہیونیوں کو اس طریقے سے حاصل ہونے والی معلومات، سائبر اسپیس اور اس علاقے میں طاقت تک رسائی، غزہ میں مزاحمت پر کاری ضرب ہے۔
نومبر 2019 میں فلسطینی جہاد اسلامی کی سرایا القدس ملٹری بٹالین کے اہم اور بااثر لیڈروں میں سے ایک بہا ابوالعطا کو غزہ کی پٹی میں ان کے گھر میں قتل کیے جانے سے لے اب تک فلسطینی اسلامی جہادکے دس سے زیادہ کمانڈروں کو صیہونی حکومت نے نشانہ بنایا ہے۔ ابوالعطاء کے قتل کے بعد ایک بار گزشتہ سال (اگست 2022) اور ایک بار حالیہ ہفتوں میں (مئی 2023)، ہم نے فلسطین میں جہاد اسلامی کے فوجی رہنماؤں کو ختم کرنے کے لیے دو ٹارگٹ حملے دیکھے ہیں:
2019 سے اب تک ہلاک ہونے والے فلسطینی جہاد اسلامی کے اہم ترین کمانڈروں کی فہرست درج ذیل ہے:
1۔ جہاد اسلامی میزائل بٹالین کے اہم اور کلیدی کمانڈروں میں سے ایک بہا ابوالعطاء (2019)
2۔ سرایا القدس بریگیڈ کے شمالی بریگیڈ کے کمانڈر حسام محمد ابو ہربید (2021)
3۔ جہاد اسلامی کے سینئر کمانڈر اس تحریک کی ملٹری کونسل کے رکن، اور غزہ کے شمالی علاقے کے ذمہ دار (2022)
4۔ خالد سعید شحادہ منصور، رفح بریگیڈ کے سینئر کمانڈر اور اسلامی جہاد موومنٹ کی ملٹری کونسل کے رکن اور غزہ کے جنوبی علاقے کے ذمہ دار (2022)
5۔ رفعت صالح ابراہیم الزمری، رفح بریگیڈ کے کمانڈروں میں سے ایک (2022)
6۔ سلامہ محراب عبداللہ عابد، غزہ بریگیڈ کے کمانڈروں میں سے ایک (2022)
7۔ زیاد احمد خلیل المدلل، رفح بریگیڈ کے کمانڈروں میں سے ایک (2022)
8۔ علی رمزی الاسود، قدس بٹالین کے کمانڈروں میں سے ایک، شام میں اسلامی جہاد کی عسکری شاخ (2023)
9۔ جہاد شاکر الغانم، مختلف سالوں میں القدس بٹالین کی قیادت (2023)
10۔ خلیل صلاح البتنی، شمالی غزہ کے علاقے کے کمانڈر اور فلسطینی مزاحمت کی راکٹ انڈسٹری کی نگرانی کے کمانڈر (2023)
11۔ طارق محمد عزالدین، مغربی کنارے میں اسلامی جہاد کی فوجی کارروائیوں کے ذمہ دار اور آپریشنز کی نگرانی کر رہے ہیں (2023)
12۔ علی حسن غالی، فلسطینی اسلامی جہاد میزائل یونٹ کے سربراہ (2023)
13۔ احمد ابو دقح، قدس بٹالین میزائل فورس کے ڈپٹی کمانڈر (2023)
14۔ ایاد الحسنی، اسلامی جہاد کے اہم کمانڈروں میں سے ایک اور آپریشنل مینیجر (2023)
تل ابیب کے کم از کم 8 حملوں کے دوران غزہ میں فلسطینیجہاد اسلامی کی تقریباً 14 اہم عسکری شخصیات کے قتل نے سوال اٹھایا ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟
غزہ کی پٹی اور جاسوسوں کا چیلنج
جاسوسوں اور حفاظتی خلا کا مسئلہ حالیہ برسوں میں سب سے سنگین مزاحمتی مسائل میں سے ایک رہا ہے،چونکہ غزہ کئی دہائیوں سے فلسطینی اتھارٹی اور صیہونی سکیورٹی فورسز کی حفاظتی اور فوجی چھتری میں رہا ہے، لیکن 2005 سے صیہونیوں کے اس پٹی سے انخلاء کے بعد، وہاں جاسوس اور جاسوسی کے لیے موجود انفراسٹرکچر کا مسئلہ اب بھی برقرار ہے، اگر آپ غزہ کی پٹی کی خبریں دکھیں تو آپ کو ہر ماہ کسی جاسوس کی گرفتاری یا پھانسی کی خبر ملے گی، حالیہ برسوں میں بھی لوگوں کو صہیونی جاسوسی کے طریقوں سے آگاہ کرنے کے لیے ٹیلی فون کی معلومات ڈمپنگ، بین الاقوامی کور کمپنیوں اور خیراتی اداروں، سوشل میڈیا وغیرہ جیسی بہت ساری مہمات چلائی گئی ہیں، اس مسئلے کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس لیے کہ جاسوسوں کی موجودگی اور اس طریقے سے صہیونیوں کو حاصل ہونے والی معلومات نے سائبر اسپیس اور اس علاقے میں طاقت تک رسائی کے ساتھ ساتھ غزہ میں مزاحمت اور جہاد اسلامی تحریک کو حالیہ برسوں میں شدید دھچکا پہنچایا ہے۔
جہاد اسلامی کی تنظیمی کمزوری
دیگر مسائل میں سے ایک جن کا تذکرہ ضروری ہے وہ اسلامی جہاد تحریک کی تنظیمی کمزوری ہے، ان کی ساخت اور رکاوٹوں کی وجہ سے، جہادیوں نے اپنے تنظیمی ڈھانچے پر زیادہ کام نہیں کیا، اس کمزوری کا ایک حصہ غزہ اور دمشق کے درمیان نظم و نسق کی منتشر ہونے کی وجہ سے ہے، جو ایک تفصیلی کہانی ہے۔
جاسوسی کی روک تھام اور اعلی ترین سطح پر تلاش
نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل نے جہاد اسلامی کے عسکری رہنماؤں کو قتل کر کے اس تحریک کو سب سے زیادہ دھچکا پہنچایا ہے، ان باتوں کو پچھلے 2 سالوں میں دہشت گردی کی سیاست میں واپسی کہا جا سکتا ہے، سب سے پہلے جہاد اسلامی کو دوسرے فلسطینی اور لبنانی مزاحمتی گروپوں اور ایران کی حمایت کے ساتھ مل کر نیتن یاہو حکومت کی اس حکمت عملی کو روکنے کا راستہ تلاش کرنا ہوگا،ایسا لگتا ہے کہ مزاحمتی مشترکہ چیمبر اس مسئلے کے لیے طویل المدتی جنگ کی منصوبہ بندی کر رہا ہے،جہاد اسلامی کے عہدیداروں نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ مصر اور قطر کی ثالثی کے ذریعے کسی بھی جنگ بندی پر دستخط کرنے کو تیار نہیں ہیں سوائے اس شق کے کہ جس میں کہا گیا ہو کہ کمانڈروں کا قتل بند ہو جائے گا۔