سچ خبریں:نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی حکومت کی تشکیل کے لیے نمایاں تقرریاں کی ہیں جو 20 جنوری کو حلف برداری کے بعد وائٹ ہاؤس میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔
انتظامی اصلاحات اور نئی وزارت کا قیام
ٹرمپ نے اپنی حکومت میں وزارت کارآمدی کے قیام کا اعلان کیا ہے، جس کا مقصد کارکردگی کو بہتر بنانا اور اخراجات میں کمی لانا ہے، اس وزارت کے لیے انہوں نے ایلان مسک اور ویوک راماسوامی کو مشترکہ وزیر مقرر کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وائٹ ہاؤس کی نئی ترجمان
عدالتی پالیسیز میں سخت گیر رویہ
ٹرمپ نے ماٹ گاٹز کو اٹارنی جنرل کے عہدے پر فائز کیا ہے، جنہیں سخت عدالتی پالیسیوں کے لیے جانا جاتا ہے،گاٹز کے تقرر سے ٹرمپ انتظامیہ میں قانونی معاملات میں سخت گیری کی توقع کی جا رہی ہے۔
وائٹ ہاؤس کی داخلی انتظامیہ
کاخ سفید کے انتظامی ڈھانچے میں تبدیلی لاتے ہوئے، ٹرمپ نے سوزی وائلز کو چیف آف اسٹاف مقرر کیا ہے، یہ پہلا موقع ہے کہ کسی خاتون کو اس اہم عہدے پر فائز کیا گیا ہے، جس سے داخلی معاملات میں شفافیت کی امید کی جا رہی ہے۔
امیگریشن پالیسی میں سخت فیصلے
ٹرمپ نے متنازع شخصیت اسٹیون ملر کو مہاجرین کے مشیر اور تام ہومن کو غیر قانونی تارکین وطن کے انخلا کے لیے ذمہ دار مقرر کیا ہے۔ یہ تقرریاں ٹرمپ کے سخت امیگریشن ایجنڈے کی عکاس ہیں۔
قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی
وزیر دفاع: پِیٹ ہگزت
ٹرمپ نے معروف ٹی وی میزبان اور سابق فوجی پِیٹ ہگزت کو وزیر دفاع مقرر کیا ہے۔
ہگزٹ فاکس نیوز پر اپنے عسکری خیالات کے لیے مشہور ہیں، لیکن حکومتی تجربے سے محروم ہیں۔ ان کی تقرری فوجی طاقت کے بھرپور دفاع کی پالیسی کو ظاہر کرتی ہے۔
ہگزٹ ایران مخالف بیانات کے لیے مشہور ہیں، انہوں نے اسرائیل کو ایران کے جوہری پروگرام پر حملے کی تجویز دی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ اسرائیل کی مداخلت کے بغیر ایران ایٹم بم بنا لیتا۔
ٹرمپ کی یہ تقرریاں ان کے سخت گیر موقف اور خارجہ و داخلی پالیسیوں میں جارحانہ رویے کو ظاہر کرتی ہیں، خاص طور پر امیگریشن اور ایران جیسے حساس معاملات میں۔
ٹرمپ کی حیرت انگیز تقرریاں؛ فاکس نیوز میزبان وزیر دفاع، اور دیگر اہم تقرریاں
امریکی صدر منتخب ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فاکس نیوز کے میزبان پِیٹ ہگزت کو وزیر دفاع مقرر کرنا امریکی حکام کے درمیان حیرت اور بحث کا سبب بن گیا ہے۔
پِیٹ ہگزت کی تقرری پر شدید ردعمل
پولٹیکو کے مطابق، اگرچہ سیکیورٹی حکام اور دفاعی تجزیہ کار ٹرمپ کی ماضی کی تقرریوں سے غافل نہیں تھے، پھر بھی ہگزت کی تقرری غیر متوقع قرار دی گئی ہے۔
سابق پینٹاگون اہلکار ایرک ایڈلمن نے اس حوالے سے کہا:
ٹرمپ کے لیے وفاداری سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ اس تقرری کا معیار یہ ہے کہ کوئی شخص ٹی وی پر ٹرمپ کا کتنا دفاع کرتا ہے۔
پولٹیکو نے لکھا ہے کہ یہ تقرری اس بات کا اشارہ ہے کہ ٹرمپ اپنی پالیسیوں کے بے چون و چرا حمایتیوں کو اہم عہدے سونپ رہے ہیں۔ ان کی انتخابی مہم کے دوران ایسے خدشات ظاہر کیے گئے تھے کہ ان کی دوسری مدت صدارت میں پینٹاگون میں بڑی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی۔
پاول ریکہاف، تنظیم آزاد امریکی فوجی اہلکار کے بانی، نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر کہا کہ پِیٹ ہگزت تاریخ میں پینٹاگون کے کم ترین تجربہ کار امیدوار ہیں!
سابق اوباما انتظامیہ کے عہدیدار ماکس برگمن نے کہا کہ یہ حیران کن ہے کہ آپ دنیا کے بگڑتے حالات میں کسی ایسے شخص کو منتخب کریں جو ایک ٹی وی شخصیت ہے اور انتہائی کم تجربہ رکھتا ہے۔
دیگر اہم تقرریاں: تولسی گابارڈ اور جان رتکلف
تولسی گابارڈ: ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس
ٹرمپ نے سابق ڈیموکریٹک کانگریس رکن تولسی گابارڈ کو امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کی سربراہی کے لیے منتخب کیا۔
گابارڈ، جو 2022 میں ڈیموکریٹک پارٹی چھوڑ کر ریپبلکن پارٹی میں شامل ہوئی تھیں، نے ٹرمپ کے انتخابی مہم کے دوران ان کی حمایت کی تھی۔
گابارڈ نے کہا تھا کہ یہ حکومت دنیا کو مختلف محاذوں پر جنگوں کی طرف دھکیل رہی ہے، اور ہم پہلے سے زیادہ جوہری جنگ کے قریب ہیں۔
جان رتکلف؛ سی آئی اے چیف
ٹرمپ نے جان رتکلف کو سی آئی اے کا سربراہ مقرر کیا اور کہا:
جان ہمیشہ سچائی اور ایمانداری کے لیے کھڑے ہوئے ہیں، جب 51 انٹیلیجنس حکام ہنٹر بائیڈن کے لیپ ٹاپ کے معاملے پر جھوٹ بول رہے تھے، جان رتکلف وہ واحد شخص تھے جنہوں نے سچائی کو عوام تک پہنچایا۔
رتکلف کو ان کی خدمات پر 2020 میں قومی سلامتی کا میڈل بھی دیا گیا تھا۔
ٹرمپ کی یہ تقرریاں ان کی ترجیحات اور پالیسیز کی جھلک پیش کرتی ہیں، جہاں وفاداری اور ان کے نظریات کی حمایت بنیادی حیثیت رکھتی ہے، چاہے متعلقہ شخص کا تجربہ کتنا ہی کم کیوں نہ ہو۔
ایران مخالف شخصیات اور تندرو سفارت کار شامل
امریکی صدر منتخب ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نئی تقرریاں ان کے ایران مخالف اور جارحانہ خارجہ پالیسی ایجنڈے کی عکاسی کرتی ہیں۔
رتکلف نے 2022 کے صدارتی انتخابات سے قبل دعویٰ کیا تھا کہ ایران نے امریکی عوام کو دھمکی آمیز ای میلز بھیجی تھیں تاکہ ٹرمپ کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جا سکے اور سماجی بے چینی پیدا کی جا سکے۔
رتکلف، جو ایران کے حوالے سے سخت موقف رکھنے کے لیے مشہور ہیں، نے بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے ایرانی پاسداران انقلاب کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکالنے کے فیصلے کی شدید مخالفت کی۔
ہاآرتص کے مطابق، ٹرمپ نے رتکلف کو نامزد کر کے اپنی کابینہ میں ایک اور ایران مخالف شخصیت کا اضافہ کیا ہے۔
الیز استفانیک: اقوام متحدہ میں امریکی سفیر
ٹرمپ نے 40 سالہ الیز استفانیک کو اقوام متحدہ میں امریکی سفیر کے طور پر نامزد کیا ہے۔ استفانیک، جو کہ ایک سخت گیر اور اسرائیل نواز شخصیت کے طور پر جانی جاتی ہیں، نے اقوام متحدہ کو یہود مخالف قرار دیا تھا اور ماضی میں اسرائیل کے خلاف مظاہروں کی مخالفت کی تھی۔
استفانیک نے مئی میں اسرائیلی کنسٹ میں خطاب کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ امریکہ اسرائیل کی حمایت جاری رکھے گا۔
ایران کے بارے میں موقف
استفانیک، سابق سفیر نکی ہیلی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایران کے خلاف مزید پابندیوں اور دباؤ کی حامی ہیں۔ وہ جوہری معاہدے (برجام) کی سخت ناقد رہی ہیں اور ٹرمپ دور میں امریکہ کے اس معاہدے سے نکلنے کی حمایت کر چکی ہیں۔
اسٹیون وِٹکاف: مغربی ایشیا کے لیے خصوصی نمائندہ
ٹرمپ نے یہودی سرمایہ دار اسٹیون وِٹکاف کو مغربی ایشیا کے لیے خصوصی نمائندہ مقرر کیا ہے۔
ٹرمپ نے وِٹکاف کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیو تجارت اور فلاحی کاموں میں ایک محترم شخصیت ہیں، جو ہر منصوبے کو مزید کامیاب بناتے ہیں۔ وہ امن کے لیے ایک مضبوط آواز ہوں گے۔
ٹرمپ کی ٹیم میں تبدیلیوں کا پیغام
ٹرمپ کی یہ تقرریاں ان کے دوسرے صدارتی دور میں ایران، اقوام متحدہ، اور مشرق وسطیٰ کے حوالے سے جارحانہ حکمت عملی کو ظاہر کرتی ہیں۔
– رتکلف کی تقرری سی آئی اے میں ایران مخالف پالیسیز کو بڑھاوا دے گی۔
– استفانیک اقوام متحدہ میں اسرائیل کے مفادات کا دفاع کریں گی۔
– اسٹیون وِٹکاف مغربی ایشیا میں ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کے لیے اہم کردار ادا کریں گے۔
یہ تقرریاں ایران کے خلاف مزید سخت رویے اور اسرائیل کی حمایت میں شدت لانے کا عندیہ دیتی ہیں۔
مغربی ایشیا کے امور میں غیر تجربہ کار اور اسرائیل نواز شخصیات کی شمولیت
امریکی صدر منتخب ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مغربی ایشیا کے لیے خصوصی نمائندہ تعینات کرنا ایک نئی پیش رفت ہے، کیونکہ ان کے پہلے دور حکومت میں یہ امور ان کے داماد جیرڈ کشنر کے سپرد تھے، جو پراپرٹی کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔
اسٹیون وِٹکاف: غیر تجربہ کار نمائندہ برائے خاورمیانہ
67 سالہ اسٹیون وِٹکاف، جو پراپرٹی کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں، مغربی ایشیا کے لیے خصوصی نمائندہ کے طور پر منتخب کیے گئے ہیں۔ وِٹکاف کا نہ تو سیاسی امور میں کوئی تجربہ ہے اور نہ ہی بین الاقوامی تعلقات میں کوئی تعلیمی پس منظر،وِٹکاف ماضی میں ٹرمپ کے پراپرٹی ڈیلر رہ چکے ہیں، اور یہی تعلق ان کی سیاست میں انٹری کا باعث بنا۔
مایک ہکابی: مقبوضہ فلسطین میں امریکی سفیر
ٹرمپ نے مایک ہکابی، سابق گورنر آرکنساس، کو فلسطین اشغالی میں امریکی سفیر مقرر کیا ہے۔
ہکابی، ایک مسیحی شدت پسند اور اسرائیل کے حامی، کھلے عام غیر قانونی یہودی بستیوں اور مغربی کنارے کے اسرائیل میں انضمام کی حمایت کرتے ہیں۔
2017 میں ایک انٹرویو میں ہکابی نے کہا تھا کہ میرے لیے مغربی کنارہ جیسی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی! مقبوضہ فلسطین میں امریکی سفیر نامزد ہونے کے بعد ہکابی نے کہا:
میری اولین ترجیح اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنانا ہے، اور یہ میرے لیے اعزاز ہوگا۔ مغربی کنارے پر اسرائیلی خودمختاری کے قیام کا یہ ایک اہم موقع ہے۔
ٹرمپ کی کابینہ: تاجر، شدت پسند، اور غیر تجربہ کار افراد پر مشتمل
ٹرمپ کی نئی کابینہ کی تشکیل میں بیشتر عہدے بے تجربہ، شدت پسند اور اسرائیل نواز شخصیات کو دیے جا رہے ہیں، جس نے ان کی دوسری مدت صدارت کے بارے میں شکوک و شبہات کو بڑھا دیا ہے۔
– وزیر دفاع کے لیے ٹی وی میزبان کو منتخب کرنا
– سی آئی اے کے سربراہ کے طور پر ایک سخت گیر ایران مخالف کی تقرری
– اقوام متحدہ میں اسرائیل نواز سفیر کی تعیناتی
– اور فلسطین اشغالی کے لیے مائیک ہکابی جیسے تندرو کا انتخاب
مزید پڑھیں: ٹرمپ کی کابینہ کے امیدوار؛ جی حضوری کرنے والے
یہ تقرریاں ظاہر کرتی ہیں کہ ٹرمپ کا دوسرا دور حکومت خارجہ پالیسی، قومی سلامتی، اور سفارتی امور میں مزید تقسیم اور سخت رویے کا باعث بنے گا۔
یہ کابینہ بھی ان کی پہلی مدت کی طرح تاجروں اور شدت پسندوں پر مشتمل ہے، جو ان کے انتخابی وعدوں کے برعکس ایک معتدل حکومت کے بجائے سخت گیر پالیسیوں کی عکاس ہے۔