?️
سچ خبریں:ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ کے لیے 20 نکاتی منصوبہ بظاہر جنگ کے خاتمے اور تعمیرِ نو کے لیے ہے، مگر تجزیہ کاروں کے مطابق یہ منصوبہ اسرائیلی مفادات کو تحفظ دیتا ہے، حماس نے اس منصوبے کو مشروط طور پر قبول کر کے سیاسی گیند امریکہ اور اسرائیل کے میدان میں پھینک دی ہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں جاری کشیدگی کے پس منظر میں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا 20 نکاتی منصوبہ برائے غزہ منظرِ عام پر آیا ہے، جو بظاہر جنگ کے خاتمے اور تعمیرِ نو کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے، مگر ماہرین کے مطابق یہ منصوبہ دراصل اسرائیلی مفادات کے تحفظ کے لیے تیار کیا گیا ہے، منصوبہ بظاہر امن کی بات کرتا ہے، لیکن اس کی ساخت اشغالگری کے نظام کو برقرار رکھنے پر مبنی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:غزہ جنگ بندی مذاکرات کی نئی تفصیلات؛ حماس کی جانب سے ٹرمپ پلان کی 2 شقوں کی مخالفت
حماس کا ردعمل ؛سیاسی چال یا دفاعی حکمت عملی؟
اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے اس منصوبے پر مشروط اور محتاط ردعمل ظاہر کیا ہے، اس تنظیم نے چند شقوں کو قبول کرتے ہوئے دیگر نکات پر تحفظات ظاہر کیے، جسے تجزیہ کاروں نے ایک عقلمندانہ اور سیاسی طور پر بالغ اقدام قرار دیا ہے۔
یہ ردعمل دراصل حماس کی جانب سے گیند کو امریکی اور اسرائیلی میدان میں پھینکنے کے مترادف ہے یعنی اب فیصلہ ان طاقتوں کے ہاتھ میں ہے کہ وہ حقیقت میں امن چاہتے ہیں یا غزہ کو مزید سیاسی دلدل میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔
منصوبے کے تین بنیادی محور: سلامتی، معیشت اور عارضی انتظام
یہ منصوبہ، جو بنیامین نیتن یاہو کے ساتھ مشاورت اور برطانوی سیاست دان ٹونی بلیئر کے اشتراک سے تیار ہوا، تین بنیادی ستونوں پر کھڑا ہے:
- سلامتی (Security):
منصوبے کا پہلا مقصد غزہ کو انتہاپسندی سے پاک علاقہ بنانا ہے۔ اس کے تحت مزاحمتی گروہوں کی تباہی، ہتھیاروں کا مکمل خاتمہ، اور بین الاقوامی نگران فورس (ISF) کی تعیناتی شامل ہے، اس فورس میں عرب اور مغربی ممالک کے اہلکار شریک ہوں گے،
منصوبے کی ایک شق میں حماس کے محدود عفو مشروط پروگرام کا ذکر ہے یعنی وہ اراکین جو پرامن بقائے باہمی پر یقین ظاہر کریں، انہیں جزوی معافی دی جا سکتی ہے، جبکہ دیگر کو غزہ سے نکلنے کا محفوظ راستہ دیا جائے گا۔ - معیشت (Economy):
غزہ کو نئی اقتصادی ریویرا بنانے کا وعدہ کیا گیا ہے ،ایک علاقہ جو سرمایہ کاری اور تعاون پر مبنی ہوگا، لیکن حقیقت میں یہ غزہ کو بین الاقوامی قرض اور امدادی مشروطیت کے جال میں پھنساتا ہے۔
تعمیرِ نو کے فنڈز براہِ راست غیر ملکی نگران اداروں کے زیر انتظام ہوں گے، جو فلسطینی خودمختاری کو مزید کمزور کریں گے۔ - ادارہ جاتی انتظام (Governance):
منصوبے کی سب سے متنازعہ شق (بند 13) میں کہا گیا ہے کہ حماس کو غزہ کے انتظام میں کوئی کردار نہیں دیا جائے گا۔
اس کے بجائے ایک عارضی بین الاقوامی انتظامی کونسل قائم کی جائے گی، جس کا مقصد بظاہر استحکام، مگر حقیقت میں فلسطینی سیاسی خودمختاری کی معطلی ہے۔
نیتن یاہو کے لیے چیلنج یا موقع؟
تجزیہ کاروں کے مطابق، نیتن یاہو کے لیے یہ منصوبہ ایک سیاسی جال بھی بن سکتا ہے۔ ایک طرف وہ اسے اسرائیل کی تعمیرِ نو میں قیادت کے طور پر پیش کر سکتے ہیں، مگر دوسری طرف حماس کی حکیمانہ سفارتی حکمت عملی نے اسرائیل کو ایک ایسے مذاکراتی فریم ورک میں لا کھڑا کیا ہے جہاں اس کی عسکری برتری سیاسی کمزوری میں بدلتی جا رہی ہے۔
ماہرین کی رائے
مشرق وسطیٰ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ دراصل امن کے پردے میں دائمی قبضے کا نمونہ ہے۔
حماس نے اس کے جواب میں تزویراتی نرمی دکھا کر بین الاقوامی رائے عامہ میں اپنی پوزیشن مضبوط کی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کون اس جال میں پھنسے گا؟
حماس، جو اپنے مطالبات پر ثابت قدم ہے، یا نیتن یاہو، جو اپنے اتحادیوں کے دباؤ میں ایک سیاسی خودفریبی کا شکار ہو رہا ہے؟
اقتصادی محور ؛ سرمایہ کاری کی آڑ میں سیاسی محاصرہ
ٹرمپ کے منصوبے کا اقتصادی محور بظاہر غزہ کو ایک “ترقی یافتہ علاقہ” بنانے کا وعدہ کرتا ہے، مگر گہرائی میں دیکھا جائے تو یہ منصوبہ غزہ کی معیشت کو بین الاقوامی سرمایہ دارانہ ڈھانچے کے تابع کر دیتا ہے۔
دسویں شق کے مطابق، ایک اقتصادی ترقیاتی کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو جدید شہروں کی تعمیر، روزگار کے نئے مواقع اور خصوصی اقتصادی زون کے قیام (بند 11) پر توجہ دے گی۔
یہ زون ترجیحی محصولات (Preferential Tariffs) کے نظام کے تحت عالمی سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش بنایا جائے گا۔
بشردوستانہ امداد ؛ فوری مگر مشروط
بند 7 کے مطابق، انسانی امداد فوری طور پر شروع ہوگی۔
منصوبے میں گزرگاہِ رفح کو اقوام متحدہ اور ہلال احمر کی نگرانی میں دوبارہ کھولنے کا وعدہ کیا گیا ہے، جبکہ پانی، بجلی، اور اسپتالوں کی بحالی کے منصوبے بھی شامل ہیں۔
تاہم، ان تمام اقدامات کے باوجود، فلسطینی عوام کی خودمختاری کے لیے کوئی واضح ضمانت نہیں دی گئی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترقی کے یہ وعدے سیاسی قید کے دائرے میں ہیں۔
غزہ والوں کے لیے ایک مبہم آزادی
بند 12 میں کہا گیا ہے کہ کسی کو بھی علاقے سے نکلنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا، لیکن واپسی کی آزادی موجود ہوگی۔
یہ جملہ بظاہر انسانی ہمدردی کی علامت ہے، لیکن فلسطینی خودمختاری کے بغیر، یہ وعدہ ایک مغربی سرمایہ دارانہ پروجیکٹ میں بدل جاتا ہے جہاں رہائش تو ہے، مگر حاکمیت نہیں۔
عارضی حکومت؛ فلسطینی قیادت کا محدود کردار
منصوبے کے انتظامی محور میں ایک نیا ادارہ، شورائے صلح (Peace Council) متعارف کرایا گیا ہے (بند 9)۔
یہ کونسل 7 سے 10 اراکین پر مشتمل ہوگی جن میں اقوام متحدہ کے نمائندے، مسلم شخصیات اور صرف ایک فلسطینی نمائندہ شامل ہوگا۔
اس کے ماتحت ایک فلسطینی ٹیکنوکریٹ کمیٹی کام کرے گی، مگر اس کی تمام تقرریاں بین الاقوامی کونسل کی منظوری سے مشروط ہوں گی۔
یعنی فلسطینی انتظامی کردار کو ادنیٰ ترین سطح تک محدود کر دیا گیا ہے، جبکہ اصل طاقت بین الاقوامی اداروں کے ہاتھ میں ہوگی۔
مزید یہ کہ منصوبے میں وزرا کا تصور ہی ختم کر دیا گیا ہے ، ان کی جگہ غیر سیاسی مینیجرز مقرر ہوں گے، جو کسی قومی پالیسی کے پابند نہیں بلکہ بین الاقوامی نگرانوں کے تابع ہوں گے۔
اسرائیلی انخلا ؛شرطوں اور ابہام کا جال
بند 16 کے مطابق، اسرائیل کا انخلا تدریجی اور مشروط ہوگا، جسے حماس کے غیر مسلح ہونے سے منسلک کیا گیا ہے۔
تاہم، کوئی ٹائم لائن یا بین الاقوامی ضمانت طے نہیں کی گئی، جبکہ شمالی اور جنوبی غزہ میں "محفوظ زون” قائم کرنے کا ذکر بھی ہے جو دراصل اسرائیلی نگرانی کو جاری رکھنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
بند 19 میں بین الادیان مکالمے اور فلسطینی اتھارٹی کی اصلاحات کا وعدہ کیا گیا ہے، مگر سیاسی افق کو مبہم مستقبل پر مؤخر کیا گیا ہے۔
بند 20 میں مذاکرات کی سربراہی براہِ راست امریکہ کے سپرد کی گئی ہے، جو غیرجانبداری کے تصور کو مزید کمزور کرتا ہے۔
امن یا سرمایہ کاری؟
یہ منصوبہ، جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران عرب رہنماؤں کو پیش کیا گیا، انسانی ہمدردی کے پردے میں ایک سیاسی مفاداتی معاہدہ قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ دراصل 2020 کی سینچری ڈیل (Deal of the Century) کی توسیع ہے، ایک ایسا فریم ورک جو غزہ کو اقتصادی بناتا ہے، مگر اشغال کو ختم نہیں کرتا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ منصوبہ فلسطینیوں کے لیے سیاسی خودمختاری کے بجائے اقتصادی انحصار کی نئی شکل پیدا کرتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے پر ماہرین نے 11 سنگین اعتراضات اٹھائے ہیں، جن میں فلسطینی خودمختاری کی نفی، غیر شفاف نگرانی، ناانصافی، اور غیر منصفانہ قیدیوں کا تبادلہ شامل ہے، حماس نے مشروط منظوری دے کر منصوبے کو سیاسی جال سے سفارتی موقع میں بدل دیا۔
ٹرمپ پلان کے چیلنجز اور ساختی تضادات
ماہرین کے مطابق، ٹرمپ کا غزہ پلان اپنے اندر گیارہ بنیادی ابہامات اور متعدد ساختی تضادات رکھتا ہے جو نہ صرف فلسطینی حقوق بلکہ عالمی انصاف کے اصولوں سے بھی متصادم ہیں۔
- حقِ خودارادیت کی نفی
منصوبہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی ضمانت نہیں دیتا۔
فلسطینی خودارادیت کو غزہ کی تعمیرِ نو اور تشکیلاتِ خودگردان کی اصلاحات سے مشروط کر کے بنیادی حق کو محدود کر دیتا ہے۔
- عبوری حکومت کی غیرمشروع حیثیت
عارضی حکومت دراصل فلسطینی عوام کی نمائندہ نہیں۔
اس کے قیام کا کوئی وقت یا فریم ورک طے نہیں، جبکہ "شورائے صلح” کی نگرانی براہِ راست ٹرمپ کے زیرِ صدارت ہوگی — جو ایک جانبدار ثالث کے طور پر غیر معتبر ہے۔
- غیرملکی سلامتی فورس
یہ فورس فلسطینی یا اقوامِ متحدہ کے کنٹرول میں نہیں ہوگی، جس سے اسرائیلی اشغالگری کی جگہ امریکی بالادستی لے لے گی۔
- غیر متوازن خلعِ سلاح
غزہ کو مکمل طور پر بغیر کسی ٹائم لائن کے غیر مسلح کرنے کی شق، اسے آئندہ کسی بھی جارحیت کے سامنے بے دفاع بنا دیتی ہے۔
- انتہا پسندی کا یکطرفہ تصور
انتہا پسندی کی اصطلاح صرف غزہ پر لاگو کی گئی ہے، جبکہ صیہونی انتہا پسندی، نسل پرستی اور نفرت انگیزی پر خاموشی اختیار کی گئی ہے۔
- معاشی استحصال
اقتصادی ترقی کے وعدوں کے باوجود، غزہ کے وسائل کو غیر ملکی سرمایہ کاروں کے ہاتھوں میں دینے کا منصوبہ ہے۔
اس میں مقامی منافع یا خودکفالت کی کوئی ضمانت نہیں۔
- جنگی غرامت کا فقدان
اسرائیل جو جنگی نقصان اور تباہی کا ذمہ دار ہے، اس منصوبے میں اس کی معاوضہ دینے کی کوئی ذمہ داری شامل نہیں۔
- غیر منصفانہ قیدیوں کا تبادلہ
تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کی ضمانت دی گئی ہے،
جبکہ فلسطینیوں میں سے صرف 250 عمر قید یافتہ اور 1700 اسیرانِ 7 اکتوبر تک محدود رہائی کی بات کی گئی ہے۔
- انصاف کا فقدان
اسرائیلی جنگی جرائم یا نسل کشی کے لیے کوئی جوابدہی یا عدالتی میکانزم موجود نہیں۔
منصوبہ انتقالی انصاف (Transitional Justice) کو مکمل طور پر نظرانداز کرتا ہے۔
- اہم مسائل پر خاموشی
منصوبہ یہودی بستیوں کی توسیع، بیت المقدس کی حیثیت، سرحدوں کی تعریف، پناہ گزینوں کی واپسی، اور غرامت جیسے بنیادی مسائل پر خاموش ہے۔
- اقوام متحدہ کا حاشیہ پر دھکیلا جانا
منصوبے میں اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، اور اونروا کے کردار کو مکمل طور پر خارج کر دیا گیا ہے، حالانکہ یہی ادارے آوارہ فلسطینیوں کی بقا کے ضامن ہیں۔
ان تمام ابہامات نے اس منصوبے کو اعلانِ بالفور یا توافقِ اوسلو کی یاد تازہ کر دی ہے یعنی ایک اور یکطرفہ امریکی-اسرائیلی مفاداتی خاکہ جو فلسطینی حقوق کو قربان کرتا ہے۔
حماس کا جواب ؛ حکمت و تدبیر کا مظاہرہ
حماس نے ٹرمپ کے منصوبے پر ایک اسٹریٹجک اور محتاط ردعمل دیا ہے۔
یہ موقف اندرونی مشاورت کے بعد اسلامی جہاد، قطر، مصر، اور ترکی جیسے اتحادیوں کے ساتھ ہم آہنگ کر کے طے کیا گیا۔
مشروط منظوری اور سیاسی چال
حماس نے منصوبے کے کچھ انسانی پہلوؤں (جیسے جنگ بندی، اسیران کا تبادلہ، اور امداد) سے اتفاق کیا، مگر سیاسی و سلامتی سے متعلق شقوں کو مسترد کر دیا۔
یہ رویہ دراصل وقت خریدنے اور ٹرمپ کی سفارتی برتری کو محدود کرنے کی چال ہے۔
حماس کے سینئر رہنما موسیٰ ابو مرزوق نے کہا کہ ہم نے منصوبے کے مثبت پہلوؤں کو تسلیم کیا ہے، مگر اس پر عمل درآمد کے لیے مذاکرات ناگزیر ہیں۔ ہماری اولین ترجیح قتلِ عام کا خاتمہ ہے۔
بیانیہ اور سیاسی اثرات
حماس کا بیان غیرمعمولی دقت کے ساتھ تحریر کیا گیا۔
اس میں ابتدا میں ٹرمپ کی امن کوششوں کی تعریف کی گئی جس سے ایک طرف امریکی صدر کے نوبل امن ایوارڈ کے خواب کو کمزور کیا گیا،
اور دوسری طرف اسرائیلی حکومت کو سفارتی دباؤ میں ڈال دیا گیا۔
یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ نے حماس کے بیان کو خود دوبارہ شائع کیا،
جبکہ نیتن یاہو سکوتِ مرگ میں چلا گیا اور امریکہ نے بمباری کی فوری معطلی کی اپیل کی۔
نتیجہ: سیاسی سطح پر نیا موڑ
ٹرمپ کا منصوبہ بظاہر امن و ترقی کا پیغام دیتا ہے، مگر درحقیقت یہ اشغال کی نئی تنظیم ہے۔
حماس نے اس منصوبے کو رد کرنے کے بجائے مشروط قبولیت کے ذریعے اسے ایک سیاسی جال سے سفارتی موقع میں تبدیل کر دیا ہے جہاں اب توپ نہ صرف اسرائیل کے میدان میں ہے بلکہ امریکہ کے لیے بھی ایک امتحانِ صداقت بن چکی ہے۔
حماس نے کن نکات سے اتفاق کیا؟
- قیدیوں کا تبادلہ
حماس نے اسرائیلی اسیران (زندہ و اجساد) کی رہائی پر مبنی ٹرمپ فارمولے سے اتفاق کیا ہے (شق 4 اور 5)۔
سینئر رہنما موسیٰ ابو مرزوق نے 72 گھنٹوں کی ڈیڈ لائن کو غیر حقیقی قرار دیا، مگر فوری مذاکرات کے لیے آمادگی ظاہر کی۔
یہ موقف نیتن یاہو کی جنگی منطق کو غیر مؤثر بنا دیتا ہے۔
حماس نے واضح کیا کہ تبادلہ میدانی شرائط کی ضمانت کے ساتھ ہوگا اور تفصیلات عربی و بین الاقوامی ثالثوں (قطر، مصر، ترکی) کے ذریعے طے ہوں گی۔
یہ اتفاق، جو دراصل حماس کی شرائط پر مبنی ہے، اسرائیل سے اشغال کا جواز چھین لیتا ہے۔
- جنگ بندی اور صیہونی انخلا
حماس نے فوری جنگ بندی اور مکمل انخلا کو بنیادی شرط قرار دیا ہے، ساتھ ہی امدادی سرگرمیوں اور تعمیرِ نو (شق 7 و 8) سے اتفاق کیا ہے۔
رہنما اسامہ حمدان کے مطابق اگر اسرائیل مثبت جواب دے تو جنگ بندی فوری ممکن ہے۔
حماس کے بیان میں جنگ بندی کے بدلے مکمل انخلا اور قیدیوں کی رہائی کے اصول کو دہراتے ہوئے، زبان کو ٹرمپ کی نفسیات کے مطابق نرم کیا گیا تاکہ اسے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
یہی اسٹریٹجی تھی جس نے ٹرمپ کو فوری بمباری روکنے کی اپیل پر مجبور کیا۔
- غزہ کی حکمرانی فلسطینیوں کے ہاتھ میں
حماس نے ٹیکنوکریٹ حکومت کے قیام پر اتفاق کیا ہے،
مگر یہ حکومت قومی اجماع اور عربی-اسلامی حمایت کے تحت کام کرے گی (شق 9)۔
بیان میں واضح کیا گیا کہ غزہ کا نظم و نسق فلسطینی اتھارٹی کے تحت ہوگا، نہ کہ بین الاقوامی اداروں یا غیر ملکی شخصیات کے ذریعے۔
یہ موقف براہِ راست ٹرمپ کے “شورائے صلح” ماڈل اور ٹونی بلیئر کی نگرانی کو مسترد کرتا ہے۔
حماس نے اپنے پرانے مؤقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ
غزہ کی حکومت ایک آزاد فلسطینی کمیٹی کے ذریعے چلائی جائے گی، جسے خطے کی حمایت حاصل ہو۔
اس طرح حماس نے منصوبے کی روح کو فلسطینی خودمختاری کے حق میں بدل دیا۔
- علاقائی حمایت اور سفارتی دباؤ
حماس کے بیان میں قطر، ترکی، مصر، اردن اور سعودی عرب کا خصوصی شکریہ ادا کیا گیا،
جس نے اس موقف کو عربی و اسلامی مشروعیت عطا کی۔
بیان میں ٹرمپ کا بھی نام لے کر شکریہ ادا کیا گیا
یہ سفارتی چال دراصل اسے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے نفسیاتی سطح پر آمادہ کرنے کا ذریعہ تھی۔
مصر اور قطر نے حماس کے اس موقف کا خیرمقدم کیا،
جس سے بیانیے کو مزید بین الاقوامی جواز ملا۔
حماس نے کن نکات کو مسترد کیا؟
- خلعِ سلاح اور حماس کا خاتمہ (شق 13)
حماس نے مکمل غیر مسلحی کے مطالبے کو یکسر مسترد کیا۔
ابو مرزوق نے کہا:
“ہتھیار آئندہ فلسطینی حکومت کے حوالے کیے جائیں گے، مگر حماس ایک قومی آزادی کی تحریک ہے، دہشتگرد تنظیم نہیں۔
اسامہ حمدان نے مزید کہا کہ جنگ کا اختتام، حماس کے اختتام کے مترادف نہیں۔
یوں شق 6 اور 13 مؤثر طور پر غیر فعال ہو گئیں۔
بیان میں اس مسئلے کو قومی اجماع اور بین الاقوامی قانون کے دائرے میں لایا گیا،
یعنی حماس نے خلعِ سلاح کو فوری مطالبہ کے بجائے طویل المیعاد سیاسی عمل سے جوڑ دیا۔
- غیر ملکی انتظام اور بیرونی مداخلت
حماس نے غیر ملکی فورسز یا بیرونی حکومت (شق 9) کی سختی سے مخالفت کی۔
بیان میں کہا گیا کہ صلح کیمٹی اور ٹونی بلیئر کی نگرانی دراصل نوآبادیاتی مداخلت کی نئی شکل ہے۔
حماس کے مطابق، صرف فلسطینی ادارے ہی غزہ کے معاملات چلا سکتے ہیں۔
یہ موقف منصوبے کے سب سے حساس حصے کو غیر مؤثر بنا دیتا ہے اور عالمی قیمومیت کے تصور کو رد کرتا ہے۔
- مشروط انخلا اور محفوظ زون
حماس نے اسرائیل کی محفوظ علاقوں (Safe Zones) کی شرط (شق 16) کو واضح طور پر مسترد کیا۔
بیان کے مطابق جنگ بندی صرف اس وقت ممکن ہے جب اسرائیل بلا استثنا مکمل انخلا کرے۔
یہ شرط دراصل قبضے کے تمام بہانوں کو ختم کر دیتی ہے۔
نتیجہ ؛ نیتن یاہو تزویراتی جال میں
تجزیہ کار فراس یاغی کے مطابق، حماس کا ردعمل ذمہ دارانہ اور سیاسی طور پر بالغ ہے، حماس نے براہِ راست امور (اسیران و حکومت) قبول کیے، مگر حساس موضوعات (غزہ کا مستقبل و خلعِ سلاح) کو مذاکراتی فریم ورک میں منتقل کر دیا۔
اس طرح حماس نے ہاں یا نہ کے جال میں پھنسنے کے بجائے بال نیتن یاہو اور ٹرمپ کے میدان میں پھینک دی۔
مزید پڑھیں:حماس کے ٹرمپ کے منصوبے پر رضامندی کا اعلان کرنے کے بعد سے غزہ پر 230 حملے
رپورٹوں کے مطابق اسرائیل ریڈیو نے اسے نیتن یاہو کے لیے سیاسی موت قرار دیا جبکہ آکسیوس نے انکشاف کیا کہ اسرائیلی قیادت حماس کے بیان کو منفی سمجھ کر غلطی کر بیٹھی۔
نتیجہ یہ ہوا کہ حماس نے جنگ کا جواز چھین لیا اور ٹرمپ کو اسرائیل پر دباؤ ڈالنے پر مجبور کر دیا۔
خلاصہ
حماس نے نہ صرف سیاسی ہوشمندی بلکہ سفارتی بصیرت کا مظاہرہ کیا،اس نے ایک یکطرفہ امریکی منصوبے کو متوازن فلسطینی موقف میں بدل کر
نہ صرف اشغال کے جواز کو ختم کیا بلکہ ٹرمپ کے امن بیانیے کو اسرائیل کے خلاف ایک دباؤ کے آلے میں تبدیل کر دیا۔
مشہور خبریں۔
ٹک ٹاک سے پیسے کمانے کی شرائط آسان کردی گئیں
?️ 9 مارچ 2024سچ خبریں: شارٹ ویڈیو شیئرنگ ایپلی کیشن ٹک ٹاک نے پلیٹ فارم
مارچ
جمہوریت کوڈی ریل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے، نثار کھوڑو
?️ 7 جنوری 2024اسلام آباد:(سچ خبریں) پاکستان پیپلزپارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو نے کہا
جنوری
قیام امن کیلئے افغانستان کے ساتھ بامعنیٰ مذاکرات کیے جائیں، حافظ نعیم الرحمٰن
?️ 18 نومبر 2024باجوڑ: (سچ خبریں) امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا
نومبر
بجلی کی قیمت میں کمی کو منظوری مل گئی
?️ 2 جون 2021لاہور(سچ خبریں) بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے بعد نیشنل پاور
جون
پی آئی اے کی نجکاری کیلئے موصول بولی مسترد، نئی تجاویز پیش
?️ 13 نومبر 2024 اسلام آباد: (سچ خبریں) نجکاری بورڈ نے قومی ایئرلائن (پی آئی
نومبر
القادر ٹرسٹ کیس: نیب کا بحریہ ٹاؤن کے دفتر پر چھاپہ، ریکارڈ حاصل کرنے میں ناکام
?️ 29 مئی 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) القادر ٹرسٹ کیس میں نیب کی جانب سے
مئی
غزہ کی تباہی پہلے سے کہیں زیادہ
?️ 17 جولائی 2025سچ خبریں: عبرانی اخبار "ہارٹز” نے تسلیم کیا ہے کہ سیٹلائٹ تصاویر
جولائی
قیدی تڑپ تڑپ کر مر گیا،کوئی پوچھنے والا نہ تھا
?️ 7 اپریل 2021سچ خبریں:بحرین کی سنٹرل جیل کےایک سیاسی قیدی کی تڑپ تڑپ کو
اپریل