(سچ خبریں) اقوام متحدہ جس کے قیام کا مقصد مظلوموں کی حمایت اور ظالم ممالک کی دہشت گردی سے کمزور ممالک کو بچانا تھا اب وہ ایک ناکارہ اور بے بس ادارہ بن چکا ہے اور امریکا جیسے دہشت گرد اور دنیا میں بدامنی پھیلانے والے ممالک کے ہاتھوں یرغمال بنایا جاچکا ہے لہٰذا اس میں تبدیلی وقت کی اہم ضرورت ہوگئی ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر نے پاکستان دورہ کے دوران وزیر اعظم عمران خاں اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقاتوں کے علاوہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں خطاب کیا ان ملاقاتوں اور اپنے خطاب میں انہوں نے نہایت عمدہ خیالات کا اظہار کیا ان کا کہنا تھا کہ فلسطین پر بے عملی اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہے تنازعہ کشمیر بھی اتنا ہی پرانا ہے جتنا فلسطین ہے، پاکستان بھارت مسئلے کے پر امن حل کے راستے پر چلیں۔
انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی میں سینکڑوں فلسطینیوں کی جانیں چلی گئیں امید ہے کہ اس اہم مسئلے پر سلامی کونسل میں بھی متفقہ آواز سنائی دے گی۔ اس معاملہ میں پاکستان کے مضبوط موقف اور فلسطینیوں کی بھر پور حمایت کو سراہتے ہوئے جنرل اسمبلی کے صدر نے کہا کہ اس وقت مذاکرات کی فوری ضرورت ہے تاکہ اسرائیلی قبضے کو ختم کیا جا سکے۔ انہوں نے دو خود مختار ریاستوں کے قیام کے لیے مذاکرات پر زور دیتے ہوئے واضح کیا کہ ان ریاستوں کو باہم امن سے رہنے کے لیے 1967ء سے قبل کی سرحدوں میں رہنا ہو گا یروشلم ان دونوں ریاستوں کا دارالحکومت ہو گا۔
انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی مشرق وسطیٰ میں امن کی بحالی تک چین سے نہیں بیٹھے گی، مسئلہ کشمیر کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے ودلکان بوزکر کا کہنا تھا کہ مجھے جموں و کشمیر کی صورت حال کا بھی بخوبی علم ہے، مجھے ادراک ہے کہ ایک عام پاکستانی کشمیر کے حوالے سے کیا محسوس کرتا ہوگا، جب فلسطین کے حوالے سے اس کے جذبات اس قدر شدید ہیں تو کشمیر پر اس کی سوچ بھی مختلف نہیں ہو سکتی۔
انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں امن و استحکام اور خوش حالی کا دارومدار پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی بحالی پر ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں تنازعہ کشمیر کا حل نکالیں، میں نے ہمیشہ فریقین پر زور دیا ہے کہ زمینی حقائق تبدیل نہ کئے جائیں، متنازعہ علاقے کی حیثیت بدلنے سے گریز کیا جائے۔
انہوں نے افغانستان میں امن کی بحالی کو وقت کی ضرورت قرار دیتے ہوئے اہل پاکستان کو خراج تحسین پیش کیا کہ انہوں نے لاکھوں افغان مہاجرین کو مصیبت کے وقت میں پناہ دی اور افغان مسئلہ کے حل اور امن کی بحالی میں مثبت کردار ادا کیا۔
ترکی سے تعلق رکھنے والے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موجودہ صدر ودلکان بوزکر کے دورۂ پاکستان کے دوران خیالات یقینا حوصلہ افزا اور حق گوئی کی عمدہ مثال ہیں اہل فلسطین کے خلاف گزشتہ دنوں اسرائیل کی جارحیت کے موقع پر بھی ودلکان بوزکر نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر کی حیثیت سے جرأت مندانہ کردار ادا کیا اور جنرل اسمبلی کا خصوصی اجلاس بلا کر فلسطین میں امن عمل کی بحالی کا راستہ ہموار کیا۔
اقوام متحدہ کا قیام تو دنیا میں امن کے قیام اور استحکام کی خاطر عمل میں لایا گیا جس میں تمام اقوام کے یکساں کردار کو تسلیم کیا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کا چارٹر بھی اس بات کی تائید کرتا ہے مگر عملی حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل اور سیکرٹریٹ کے مختلف عالمی امور سے متعلق کردار اور اختیارات میں شدید عدم توازن پایا جاتا ہے، سلامتی کونسل میں دنیا کے چھ بڑے ملکوں کی مستقل رکنیت اور ویٹو کا اختیار خرابی کی بنیادی جڑ ہے جس نے اقوام متحدہ کے پورے ادارے کو مستقل ارکان کا یرغمال بنا کر رکھ دیا ہے۔
فلسطین اور عزہ پر اسرائیل کی حالیہ جارحیت کے دوران امریکہ نے سلامتی کونسل کے تمام ارکان کی متفقہ قرار دادوں کو جس طرح یک طرفہ طور پر ویٹو کر کے اسرائیل کو ہنستے فلسطین باشندوں، بچوں، بوڑھوں اور عورتوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے کا موقع دیا اس نے اس ادارے کی کارکردگی سے متعلق بہت سے سوالات کھڑے کر دیئے ہیں اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل کی حیثیت چند بڑی طاقتوں کی باندی سے زیادہ کچھ نہیں۔
پھر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس سلامتی کونسل کے مستقل ارکان میں دنیا میں آباد پونے دو کروڑ مسلمانوں کی نمائندگی صفر ہے، ایسے عدم توازن کی موجودگی میں اس ادارے سے دنیا میں امن کو قائم اور مستحکم رکھنے میں کسی موثر کردار کی توقع رکھنا عبث ہے۔
ان حالات میں اقوام متحدہ کے موجودہ صدر ودلکان بوزکر کے دورۂ پاکستان کے دوران خیالات بلاشبہ حوصلہ افزا اور خوش آئندہ ہیں، ان کا یہ عزم بھی قابل قدر ہے کہ ان کی قیادت میں جنرل اسمبلی مشرق وسطیٰ میں امن کی بحالی تک چین سے نہیں بیٹھے گی مگر زمینی حقائق اس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ اقوام متحدہ کے ڈھانچہ پر فوری نظرثانی وقت کی اشد ضرورت ہے، خاص طور پر سلامتی کونسل میں چھ مستقل ارکان کی موجودگی، ان کو حاصل اندھے اور بے پناہ اختیارات کا حامل ویٹوکا حق ختم کئے اور سلامتی کونسل کے مستقل ارکان میں پونے دو ارب مسلمانوں کو نمائندگی دیئے بغیر اس ادارے سے امن و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔
موجودہ صورت میں اس ادارے میں موجود بڑی طاقتوں خصوصاً امریکہ نے اپنے کردار سے بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ وہ عدل و انصاف کی بجائے جس کی لاٹھی، اس کی بھینس کے اصول کی علم بردار ہیں اور اسی پر عمل پیرا بھی ہیں۔
اقوام متحدہ کے اس کردار کو تبدیل کرنے کے لیے اس کے ڈھانچے میں تبدیلی خصوصاً جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل اور سیکرٹریٹ کے اختیارات میں موجود تفاوت کے خاتمہ کے لیے جاندار اصلاحات وقت کا اہم تقاضا ہے۔
مغربی دنیا خود کو جمہوریت پسند کہتی ہے مگر اس نے اقوام متحدہ کی تشکیل غیر جمہوری اصول پر کی ہے، جمہوری اعتبار سے اقوام متحدہ کے تمام فیصلے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اکثریت کی بنیاد پر ہونے چاہئیں مگر عملاً ہو یہ رہا ہے کہ اقوام متحدہ کے سارے اہم فیصلے سلامتی کونسل میں پانچ بڑی ویٹو پاورز کی خواہشات اور مفادات کے مطابق ہوتے ہیں۔
مغربی دنیا کے دانش ور اور ذرائع ابلاغ آئے دن جمہوریت کے راگ الاپتے رہتے ہیں مگر انہیں اقوام متحدہ جیسے ادارے میں موجود جمہوریت دشمنی نظر نہیں آتی۔
دیکھا جائے تو یہ صورت حال اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ مغرب کی جمہوریت پسندی بھی دیک ڈھکوسلا ہے، مغرب کو جمہوریت سے بہت محبت ہوتی تو وہ کبھی سلامتی کونسل کو پانچ بڑی طاقتوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑتا، بہرحال مغرب اقوام متحدہ کو حقیقی اقوام متحدہ بنانا چاہتا ہے تو اسے اقوام متحدہ کے ڈھانچے میں اصلاح کرنی ہوگی۔