(سچ خبریں) امریکہ کی جانب سے افغانستان میں ایک نئی سازش کی جارہی ہے جس کے تحت وہ کوشش کر رہا ہے کہ افغانستان میں فضائی حملوں کے لیئے پڑوسی ممالک کی فضائی حدود کو استعمال کیا جائے لیکن پاکستان نے بالکل واضح طور پو امریکہ کو جواب دیا ہے کہ پاکستان، افغانستان کے اندر کسی بھی طرح کی کارروائی کے لئے اپنے کسی بھی اڈے اور اپنی سرزمین امریکہ کو استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دے گا۔
امریکی ٹیلی وژن نیٹ ورک ایچ بی او کے اتوار کے لئے ریکارڈ کیے گئے انٹرویو کے منظر عام پر آنے والے ٹریلر میں وزیراعظم کا یہ دو ٹوک اعلان ایک طرف ان قیاس آرائیوں کے خاتمے کا سبب بنے گا جو پچھلے کئی ہفتوں سے امریکی ذرائع سے سامنے آنے والی اطلاعات کی بنا پر جاری تھیں اور دوسری طرف پوری پاکستانی قوم کے لئے اطمینان کا باعث ہوگا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ نائن الیون واقعات کو جواز بناکر امریکہ نے افغانستان پر فوج کشی کی اور بش انتظامیہ کے مطالبے پر پاکستان کی جانب سے امریکہ کو فوجی اڈے دیے گئے تو ایک طرف پورا ملک ہولناک دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا اور دوسری طرف دہشت گردوں کے خاتمے کے نام پر امریکہ کے ڈرون حملے روز کا معمول بن گئے جن میں خود معتبر امریکی ذرائع کے مطابق ایک دہشت گرد کے ساتھ اوسطاً پچاس عام شہری جاں بحق ہوتے تھے۔
امریکہ کو اڈے دینے کے سوال پر وزیراعظم کے موقف کا پس منظر یہ ہے کہ امریکہ 11ستمبر تک افغانستان سے اپنی افواج کے مکمل انخلاء کے بعد اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے خطے میں فوجی اڈے حاصل کرنے کا خواہش مند ہے اور پچھلے دنوں منظر عام پر آنے والی اطلاعات کے مطابق اس مقصد کے لئے جن ملکوں سے جوبائیڈن انتظامیہ کے رابطے ہوئے ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ جبکہ ان خبروں کے سامنے آنے پرطالبان کی جانب سے یہ انتباہی اعلان کیا گیا تھا کہ پڑوسی ملکوں نے امریکہ کو فوجی اڈے دیے تو یہ تاریخی غلطی ہوگی۔
اس تناظر میں ایچ بی او ایکزیوس کے جوناتھن سوان نے جب وزیراعظم سے سوال کیا کہ کیا آپ امریکی حکومت کو پاکستان میں سی آئی اے کی موجودگی کی اجازت دیتے ہیں تاکہ وہ القاعدہ، داعش یا طالبان کے خلاف سرحد پار انسداد دہشت گردی مشن چلائیں؟ اور وزیراعظم نے بلا تامل اس کا جواب دوٹوک انکار کی صورت میں دیا تو امریکی صحافی نے حیران ہوکر پوچھا کہ کیا آپ یہ بات سنجیدگی سے کہہ رہے ہیں جس پر وزیراعظم نے ایک بار پھر یہ وضاحت کرکے کہ ان کا یہ جواب قطعی اور حتمی ہے، شکوک و شبہات کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہنے دی۔
حقیقت یہ ہے کہ مشرف دور کے برخلاف وزیراعظم کا یہ جواب ثابت کرتا ہے کہ جمہوری حکومت آمرانہ حکومت کے مقابلے میں قومی خود مختاری کے تحفظ کی کہیں بہتر اہلیت رکھتی ہے۔ حال ہی میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی سینیٹ میں اپنے خطاب میں افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے لئے امریکہ کو فوجی اڈے فراہم کرنے کے امکان کو مسترد کرچکے ہیں اور ہفتے کو ترکی میں جاری انطالیہ سفارتی فورم میں شریک اپنے افغان ہم منصب محمد حنیف آتمر سے ملاقات میں انہوں نے پاک افغان تعلقات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ باہمی الزام تراشی سے گریز کرتے ہوئے پاکستان، افغانستان کے ساتھ باہمی دلچسپی کے تمام شعبوں میں دو طرفہ تعاون کے فروغ کا متمنی ہے۔
ترک میڈیا کو انٹرویو میں وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد خطے میں قیام امن کی تمام تر ذمہ داری کا بوجھ صرف پاکستان پر نہیں ڈالا جا سکتا، افغانستان کی صورتحال پیچیدہ ہے، وہاں طاقت کے حصول کے لئے رسا کشی جاری ہے، خطے میں دیگر عالمی طاقتوں کا کردار بھی ہے، لہٰذا امن عمل کے تمام شراکت داروں کو باہمی تعاون سے یہ ذمہ داری نبھانا ہو گی۔ امید ہے کہ پاکستان کے اس موقف کو افغانستان اور خطے کے تمام ملکوں کی جانب سے پذیرائی حاصل ہوگی اور افغانستان میں امن و استحکام اور ترقی و خوشحالی کے ایک پائیدار دور کے آغاز کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔