(سچ خبریں) ایک عجیب و غریب مسئلہ ہے کہ جب بھی پاکستانی وزیر خارجہ بیرون ملک جاتے ہیں یا کوئی بین الاقوامی اجلاس ہوتا ہے ایک خبر گردش کرنے لگتی ہے کہ بھارت اور پاکستان میں خفیہ مذاکرات ہونے جارہے ہیں، تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ بھارت پاکستان سے بیک ڈور رابطے کے لیے بے چین ہے، بس اس کو جان چھڑانی مشکل ہورہی ہے اور پاکستان ہے کہ نخرے دکھا رہا ہے۔
ایک مرتبہ پھر اخبارات کی زینت بننے والی ایک بڑی خبر یہی ہے کہ پاکستان اور بھارت میں متحدہ عرب امارات کے تعاون سے کوئی خفیہ مذاکرات ہورہے ہیں یا ہونے والے ہیں، جس کی تردید وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کی ہے کہ کوئی خفیہ مذاکرات ہورہے ہیں نہ متحدہ عرب امارات ثانی کررہا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت ایسا کیوں چاہے گا، اس پر کس کا دبائو ہے، اس کو دنیا کی کون سی طاقت مقبوضہ کشمیر میں مظالم سے روک رہی ہے، جس ملک پاکستان کا کشمیر پر دعویٰ ہے اس کی حکومت ہی بزدلی کی انتہائی گہرائیوں میں گری ہوئی ہے۔
صدر، وزیراعظم، وزرا سمیت پوری حکومتی مشینری صرف کمنٹری کرتی ہے کہ بھارت کشمیر میں مظالم کررہا ہے، اس کا اقدام غلط ہے، اس کا کشمیر میں قانون تبدیل کرنا غلط ہے، لیکن یہ بات ایک مرتبہ بھی نہیں ہوئی کہ پاکستان نے اس صورت حال پر تقریروں کے علاوہ کام کیا ہو۔
ایک گھنٹہ اور آدھا گھنٹہ سڑکوں پر کھڑا ہونا اور بس، اب بھی شاہ محمود صاحب کے انداز سے ایسا ہی لگ رہا ہے کہ پاکستان مذاکرات چاہتا ہے۔
ان کا کہنا یہ ہے کہ پاکستان نے کبھی مذاکرات سے انکار نہیں کیا، شاہ محمود صاحب لاکھ تسلیاں دے لیں بات مذاکرات سے بہت آگے نکل چکی ہے۔
دوسری جانب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات دو حریف ملکوں پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں، جس کی تصدیق سعودی نائب وزیر خارجہ اور امریکہ میں اماراتی سفیر دونوں کر چکے ہیں، تاہم سوال یہ ہے کہ بھارت سے قریبی تعلقات رکھنے والے یہ دونوں خلیجی ممالک دو ایٹمی طاقتوں کی دوستی کروانے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں؟
بین الاقوامی امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کے خیال میں امریکہ اور دیگر عالمی طاقتیں ان خلیجی ممالک کے ذریعے قیام امن کا مقصد حاصل کرنا چاہتی ہیں جبکہ پاکستان اور بھارت کے اندورنی حالات بھی دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کے متقاضی ہیں۔
واضح رہے کہ کچھ عرصہ قبل برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے اس سال جنوری میں دونوں جنوبی ایشیائی ہمسایہ ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کے اعلیٰ عہدے داروں کی دبئی میں ملاقات کا انکشاف کیا تھا، دہلی کے فوراً بعد اسلام آباد کا دورہ کرنے والے روسی وزیر خارجہ سرگے لاوروف نے مذاکرات کی تصدیق کرتے ہوئے ان کا خیرمقدم کیا تھا۔
2019 میں جموں کشمیر کی خود مختار حیثیت تبدیل کیے جانے کے بعد سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات تعطل کا شکار رہے ہیں۔
یاد رہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی نے پانچ اگست، 2019 کو کشمیر کی آئینی حیثیت بدل دی تھی، جس کے جواب میں پاکستان نے اپنے ہمسائے ملک کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات میں بڑے پیمانے پر کمی کر دی۔
ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ ایٹمی استعداد رکھنے والے پڑوسی کیوں یکایک مذاکرات کے لیے رضامند ہوگئے؟ اور سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی اسلام آباد اور نئی دہلی کو مذاکراتی میز پر لانے میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟
اس دوران یہ خبر بھی آ چکی یے کہ دونوں حکومتوں نے گذشتہ کئی ماہ کے دوران بیک چینل ڈپلومیسی کے ذریعے تعلقات کو معمول پر لانے کی بھی کوشش کی ہے۔ جنرل (ر) طلعت مسعود کے خیال میں دونوں ملکوں کے اندرونی سیاسی، معاشی اور اقتصادی حالات اس بات کا تقاضا کر رہے ہیں کہ ہمسائے کے ساتھ شورش کو ختم کیا جائے۔
بھارت اور پاکستان دوسرے مسائل کے علاوہ گذشتہ ایک سال سے ساری دنیا کی طرح کووڈ 19 کے جھمیلے میں الجھے ہوئے ہیں، جو پاکستان کی نسبت بھارت میں سنگین شکل میں موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد اور نئی دہلی میں یہ احساس یقیناً موجود ہے کہ لائن آف کنٹرول پر کبھی کبھار ہونے والی فائرنگ سویلین آبادی کو نقصان پہنچانے کے علاوہ کسی بھی وقت معاملات کے ہاتھ سے نکلنے کی وجہ بن سکتی ہے۔
تجزیہ کاروں کے خیال میں دنیا کی بڑی طاقتیں خصوصاً امریکہ، روس اور چین، پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات کی خواہاں ہیں، جس کی بڑی وجوہات میں سے ایک دونوں ہمسایوں کا ایٹمی طاقتیں ہونا ہے۔
دراصل یہ روس اور چین ہی ہیں، جنہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان بیک چینل ڈپلومیسی کی راہیں ہموار کرنے میں مدد فراہم کی کیونکہ دونوں کے اپنے اپنے مفادات جنوبی ایشیا سے منسلک ہیں۔
بیجنگ سی پیک منصوبے کو خراب ہونے سے بچانا چاہتا ہے جبکہ ماسکو گرم پانیوں تک پہنچنے کے لیے اس مرتبہ جنگ کی بجائے دوستی کی راہ اختیار کرنے کا پلان بنا رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ روسی وزیر خارجہ سرگے لاوروف کی اس خطے کے لیے پالیسی ماضی سے بہت مختلف ہے۔ امریکہ بھی یقیناً جنوبی ایشیا میں امن دیکھنا چاہتا ہے کیونکہ واشنگٹن کا بڑا ہدف چین ہے جسے وہ نئی دہلی کے ذریعے قابو میں رکھنا چاہتے ہیں۔ اگر بھارت پاکستان کے ساتھ کشیدگی میں ملوث رہے گا تو چین پر توجہ نہیں دے سکے گا جبکہ امریکہ کی دلچسپی ہے کہ دہلی پوری طرح بیجنگ کو مصروف رکھے، جس سے امریکی مفادات کی تکمیل ہو سکتی ہے۔
بھارت اور چین کے درمیان گذشتہ کچھ عرصے سے سرحدی کشیدگی بھی شاید دہلی کو پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔
دوسری جانب افغانستان میں امریکی فوجی انخلا کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اور عدم اعتماد جنگ سے پہلے ہی تباہ حال ملک کو مزید غیر یقینی صورت حال سے دوچار کر سکتا ہے۔
ایک اور اہم سوال یہ بھی یے کہ ہمسایہ ملکوں کے درمیان اس وقت کو تعلقات بہتری کرنے کے لیے کیوں چنا گیا؟ مبصرین کا خیال ہے کہ شاید عمران خان اور نریندر مودی دونوں تقریباً اپنی حکومتوں کی مدت کے وسط میں ہیں۔
یہ دونوں کے لیے کوئی بڑا فیصلہ لینے کا آخری موقع ہوسکتا ہے کیونکہ اس کے بعد دونوں اگلے انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہو جائیں گے اور ایسے وقت میں ان کے لیے کسی پیش رفت کو عوام میں مقبول بنانا انتہائی مشکل ہوگا۔
عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے سیاسی رہنما انتخابات میں ایک دوسرے کے خلاف سخت بیانات دے کر اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔
ہر سیاسی جماعت دوسرے ملک کو دشمن کے طور پر پیش کرکے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ نریندر مودی خصوصاً اس میں پیش پیش دکھائی دئیے ہیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان اور بھارت نے بیک چینل ڈپلومیسی کے لیے آخر دو خلیجی ممالک کا ہی انتخاب کیوں کیا؟ اس سوال کا ایک سادہ جواب تو یہ ہے کہ ان خلیجی ممالک کے پچھلے کچھ برسوں سے پاکستان کے علاوہ بھارت کے ساتھ بھی مثالی تعلقات ہیں لہذا دونوں ممالک کو انکی ثالثی پر اعتراض نہیں ہوگا۔
دوسری بات یہ کہ پاکستان نے ان دو ممالک کو ثالثی کی نہیں چنا بلکہ بین الاقوامی طاقتوں نے چنا ہے اور اس میں بنیادی کردار امریکہ کا ہے۔ اس بارے طلعت مسعود کا کہنا یے کہ اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے کے بعد سے متحدہ عرب امارات کی اسلامی دنیا میں کافی مخالفت پائی جاتی ہے اور شاید ان کے خیال میں پاکستان بھارت تعلقات میں کوئی کردار ادا کرکے وہ ان دونوں ملکوں کے مسلمانوں کے دل جیت سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ متحدہ عرب امارات کے اس معاملے میں ملوث ہونے کی ایک وجہ اس عرب ملک میں بہت بڑی تعداد میں پاکستانی اور بھارتی شہریوں کی موجودگی بھی ہو سکتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں اضافہ متحدہ عرب امارات میں موجود پاکستانی اور بھارتی ورکرز کے درمیان تناؤ کی وجہ بن سکتی ہے جو کسی صورت بھی اماراتی حکومت کو فائدہ نہیں پہنچائے گی۔
کچھ اسی طرح کا معاملہ امریکہ نواز سعودی عرب کا بھی ہے جس نے پہلے کشمیر کے معاملے پر بھارت کے خلاف پاکستان کا ساتھ دینے سے صاف انکار کر دیا اور اب وہ مودی اور عمران خان کی دوستی کروانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔