کراچی: (سچ خبریں) پاکستان کی نوجوان اداکارہ نازش جہانگیر کا خیال ہے کہ سڑک پر عورت مارچ کرنا فیمنزم نہیں ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، عورت مارچ کی وجہ سے خلع کی شرح میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔
اداکارہ نازش جہانگیر نامور یوٹیوبر نادر علی کے پوڈکاسٹ میں شرکت کی اور اپنے کریئر کے علاوہ فیمنزم اور عورت مارچ کے حوالے سے بھی اپنی رائے کا اظہار کیا۔
اداکارہ کہتی ہیں کہ میں بہت زیادہ فیمنسٹ نہیں ہوں، میں برابری میں یقین رکھتی ہوں، میں آج بھی ڈٹ کر کہتی ہوں کہ ہر روتی عورت سچی نہیں ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ میں نے یہ نہیں بول رہی کہ میں کسی عورت کے ساتھ نہیں کھڑی ہورہی، لیکن اگر کسی مرد کے ساتھ بھی زیادتی ہورہی ہے تو میں بھی اس کے ساتھ کھڑی ہوں۔
اداکارہ نازش جہانگیر نے اپنے رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ سڑک پر عورت مارچ کرنا فیمنزم ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، جس کے حق کے لیے ہم سڑک پر آواز اٹھا رہے ہیں ان کے پاس تو یہ باتیں پہنچ ہی نہیں رہیں، وہ تو کسی گاؤں میں آلو کی بھجیا یا دال روٹی بنا رہی ہوں گی۔’
انہوں نے کہا کہ فیمنزم کے بارے میں ہمارے جیسے لوگوں کو تو سب معلوم ہے لیکن جن لوگوں کے ہم لڑرہے ہیں اور آواز اٹھا رہے ہیں انہیں تو کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔
نازش نے کہا کہ میں شاید یہ بات کرتے ہوئے غلط ہوسکتی ہوں لیکن عورت مارچ کے بعد خلع کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے، میں یہ نہیں کہہ رہی کہ لڑکیوں کو ظلم سہنا چاہیے، نہیں، اگر کوئی ظلم کررہا ہے تو اس رشتے سے نکلنے سے کوشش کرو لیکن رشتوں کو سمجھنا نہیں چھوڑو۔
اداکارہ نے کہا کہ اب یہ ہوتا ہے کہ شادی ہوئی اور ایک ماہ بعد طلاق ہوگئی، طلاق کی وجہ یہ ہوتی کہ ’ساس نے کہا کہ صبح 10 بجے اٹھو‘، اگر آپ سمجھتے ہیں طلاق کی یہ وجہ ہے تو علیحدگی کے بعد آنسو نہیں بہاؤ، مضبوط رہ کر بچوں کی تنہا پرورش کرو۔
’جہاں عورت کے حقوق ہیں وہاں مردوں کے بھی حقوق ہیں، جہاں عورت کے ساتھ زیادتی پر شور ہورہا ہے وہاں مرد کے ساتھ زیادتی پر بھی شور ہونا چاہیے۔‘
اداکارہ نے مزید کہا کہ ’میں یہ نہیں کہہ رہی کہ ہر عورت فیمنزم کا غلط استعمال کرتی ہے لیکن بہت سی خواتین اس کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔‘
نازش جہانگیر نے کہا کہ فیمنسٹ ہونے میں کوئی قباحت نہیں، بس میں سب سے پہلے عورتوں کو بٹھایا جاتا ہے، ٹکٹ کی لائن میں خواتین کو آگے کیا جاتا ہے اور ہمیں کیا چاہیے؟
’اگر لڑنا ہے تو ان کے لیے لڑو جن کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے، جو دور دراز کسی کچے علاقے میں بیٹھی ہیں، اگر وہاں تک پہنچ گئے تو میں عورت مارچ کو بھی مان لوں گی۔‘