سچ خبریں: ایک طرف نیتن یاہو کی کابینہ نے جمعہ کی رات سے غزہ کی پٹی پر حملوں میں شدت پیدا کر دی ہے دوسری طرف اسے ان خاندانوں کے خدشات کا جواب دینا چاہیے جن کے افراد کو فلسطینی اسلامی مزاحمت نے طوفان الاقصیٰ آپریشن کے دوران گرفتار کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: تل ابیب میں اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے لیے احتجاجی ریلی
تل ابیب نے جمعے کی رات غزہ کی پٹی پر زمینی حملوں میں توسیع کا اعلان کیا جبکہ صیہونی اخبار یدیوت احرونٹ نے ہفتے کے روز خبر دی کہ غزہ کی پٹی میں موجود صہیونی قیدیوں کے اہل خانہ نے اسرائیلی کابینہ سے ملاقات کی درخواست کی۔
اس صہیونی اخبار کے مطابق ان خاندانوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے سامنے یہ وضاحت کی جائے کہ غزہ کی پٹی پر زمینی حملوں کے دوران صہیونی قیدیوں کی حفاظت کیسے کی جائے گی۔
درایں اثنا حماس تحریک کی عسکری ونگ القسام بریگیڈ کے ترجمان ابو عبیدہ نے 24 اکتوبر کو اعلان کیا کہ غزہ میں 250 اسرائیلی قیدی ہیں جن میں سے 200 القسام کی قید میں ہیں جبکہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی حملوں میں متعدد صیہونی قیدی مارے گئے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ جہاں صہیونی قیدیوں کے اہل خانہ اسرائیلی فوج کے حملوں میں اپنے افراد کے مارے جانے پر پریشان ہیں وہیں انسانی ہمدردی کی بنا پر فلسطینی مزاحمت کاروں کی قید سے رہا ہونے والے قیدیوں نے قید کے دوران ان کے ساتھ مزاحمتی سلوک پر اطمینان کا اظہار کیا،
آزاد ہونے والے صہیونی قیدیوں میں سے ایک یوخفید لافشٹز نے اس سے پہلے قیدیوں کے ساتھ مزاحمتی سلوک کے بارے میں کہا کہ انہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ قرآن کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں اور ہمیں پریشان نہیں کریں گے،جو کھانا ہمیں دیا جاتا تھا مجاہدین بھی وہی کھاتے تھے۔
مزید پڑھیں: حماس کے پاس صہیونی قیدی ابھی تک زندہ ہیں
صہیونی قیدیوں کے اہل خانہ میں سے بعض نے کہا ہے کہ حالیہ تنازعات کے دوران گزشتہ رات ان کے لیے سب سے خوفناک رات تھی، ان کا کہنا ہے کہ قیدیوں کی صورتحال ان کے لیے غیر واضح ہے جب کہ غزہ شدید بمباری کا نشانہ ہے۔