سچ خبریں:امریکہ اور سعودی اتحاد کی مسلسل رکاوٹوں کی وجہ سے یمن میں نہ جنگ اور نہ ہی امن کی صورتحال زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی اور جلد ہی صنعا کے خطرناک ہتھیاروں کے فعال ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا۔
26 مارچ 2015ء سے سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات سمیت متعدد عرب ممالک کے اتحاد کی صورت میں امریکہ کی مدد اور ہری جھنڈی نیز صیہونی حکومت کی حمایت سے یمن کے خلاف بڑے پیمانے پر حملے شروع کئے، تاہم سعودیوں کی توقعات کے برعکس، ان حملوں نے یمنی قوم کی مزاحمت کی مضبوط ڈھال کو نشانہ بنایا جس کا انہوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور سعودی سرزمین بالخصوص آرامکو کی تنصیبات پر ایسے دردناک حملے کیے کہ ریاض کو ہار ماننا پڑی اس نے اس جنگ کی دلدل سے نکلنے کی امید میں جنگ بندی کا اعلان کیا۔
انصار اللہ نے خطرے کی گھنٹی بجا دی
یمن میں تحریک انصار اللہ کے سیاسی دفتر کے رکن محمد البخیتی نے کہا کہ امریکہ اور انگلستان یمن کے بحران کے حل کی کوششوں میں پیش رفت کو روکنے کے لیے مداخلت کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں ہم ایک بار پھر بحران کی طرف لوٹ سکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ جب جنگ چھڑتی ہے تو امریکہ جان بوجھ کر امن کے بارے میں بیانات دیتا ہے اور جب مذاکرات میں پیش رفت ہوتی ہے تو اسے ناکام بنانے کے لیے مداخلت کرتا ہے۔ ہمارے پاس تیل کی سپلائی روکنے کی صلاحیت ہے، لہٰذا جب امریکہ کو معلوم ہوا کہ اس کے مفادات کو خطرہ لاحق ہے تو اس نے ہمارے ملک میں نہ جنگ اور نہ ہی امن کی کیفیت پیدا کر دی لہذا موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اور چونکہ جنگ بندی میں توسیع کے لیے مذاکرات ابھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں، اس لیے اگلے مرحلے میں صرف ایک آپشن رہ گیا ہے، وہ ہے جارحین اور جارحیت پسندوں کے خلاف وسیع فوجی آپریشن کا نیا دور۔
یمن کی تحریک انصار اللہ کے سینئر رکن محمد علی الحوثی نے بھی کہا کہ یہ گروہ اقوام متحدہ کی جنگ بندی کے خاتمے کے بعد یمن میں نہ تو جنگ اور نہ ہی امن کے حالات کے خلاف ہے اور اس صورتحال سے غیر مطمئن ہے،انہوں نے مزید کہا کہ یمن پر محاصرے اور حملے کے سائے میں بہت سی رکاوٹیں ہیں لیکن جنگ بندی کی توسیع کو مسترد کر دیا گیا ہے لہذا ہم نہ تو امن اور نہ جنگ ککی صورتحال میں نہیں رہ سکتے ہیں جبکہ یہاں فوجی، سکیورٹی، انتظامی اور خدماتی لڑائی جاری ہے،اس سلسلے میں انصار اللہ کی سپریم پولیٹیکل کونسل کے سربراہ مہدی المشاط نے جنگ کے لیے اس تحریک کی تیاری کا اعلان کیا۔
یمن میں جنگ بندی میں توسیع کی راہ میں رکاوٹیں
تاہم اس جنگ بندی میں توسیع کو بہت سی رکاوٹوں کا سامنا ہے جن میں سب سے اہم یمن کی ناکہ بندی کا جاری رہنا ہے، اس ملک کی قومی نجات حکومت کے لیڈروں نے ملک میں حالات پر امن برقرار رکھنے کی اپنی خواہش پر زور دیتے ہوئے سب سے پہلے محاصرہ اٹھانے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ یہ حق حاصل کرنے کے لیے ان کے ہاتھ میں بہت سے دوسرے جیتنے والے کارڈز بھی ہیں، اس کے علاوہ موجودہ بین الاقوامی حالات کا کچھ حصہ بھی ان کے حق میں ہے،صنعاء کے رہنماؤں کے نقطہ نظر سے جنگ بندی کو اس کی موجودہ شکل میں بڑھانا ایک بے سود کوشش ہے جس کے نتائج اس صورت حال کے بانیوں کو متاثر کریں گے،صنعا کی قومی نجات حکومت کا مطالبہ میں اس ملک میں حقیقی امن ہونا چاہیے جس میں سب سے بڑھ کر ناکہ بندی کا خاتمہ اور صنعاء کے ہوائی اڈے نیز حدیدہ بندرگاہ پر عائد تمام پابندیاں ہٹا دی جائیں۔
غیر مساوی جنگ سعودی اتحاد کو فتح کی نوید نہیں دے سکتی
کہا جا سکتا ہے کہ ریاض یمن میں جنگ نہیں جیت سکتا،آٹھ سالوں میں ریاض کی فوجی برتری اور مغرب اور امریکہ سے بہت سے ہتھیاروں کی وصولی کے باوجود سعودی اتحاد کو کو کامیابی حاصل نہیں ہو سکی بلکہ اسے یمن میں اپنے تزویراتی اہداف کو حاصل کرنے میں شدید ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے لہذا اب ریاض کے لیے اس دلدل سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ ایک سیاسی اور مستقل حل تک پہنچنے کے لیے مسقط کے ساتھ ایک قابل اعتماد ثالث کے طور پر تعاون کرے،یاد رہے کہ اس جنگ کی وجہ سے بھوک اور ہیضے جیسی متعدی بیماریاں پھیلی ہیں نیز معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، اکتوبر 2022 میں ختم ہونے والی جنگ بندی میں ابھی توسیع نہیں کی گئی ہے جبکہ صنعاء کے حکام نے خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ اس صورتحال کو مزید برداشت نہیں کریں گے، تاہم سوال یہ ہے کہ کیا ریاض یمنیوں کے تباہ کن میزائل اور ڈرون حملوں کو برداشت کر سکتا ہے؟
واضح رہے کہ سعودی اتحاد کو امید یہ تھی کہ یمنی عوام حملوں سے تھک کر ریاض کے مطالبات کے آگے گھٹنے ٹیک دیں گے، لیکن ان کے اس مفروضے کے برعکس ہوا جس کے بعد سعودی حکام نے وحشیانہ بمباری کے علاوہ، اقتصادی ناکہ بندی اور یمنیوں کو بھوکا مارنے کی پالیسی کی طرف رجوع کیا، تاہم اس طرح بھی وہ اب تک اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں جبکہ 2023 کے حالات 2022 کے حالات جیسے نہیں ہوں گے اور اگر مذاکراتی عمل اپنے انجام کو نہیں پہنچتا تو شائد ایسی صورتحال دیکھنے کو ملے جو سعودی اتحاد کے لیے زیادہ خوشگوار نہ ہو،اس دوران یمن میں امن کے قیام میں امریکہ کی رکاوٹوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کیونکہ امریکہ سعودی عرب کو مزید ہتھیار فروخت کرنے کے لئے بحران کو جاری رکھنا چاہتا ہے، اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب نے 2017 سے 2021 تک اپنے تقریباً 23 فیصد ہتھیار امریکہ سے خریدے نیز اس میں مغربی ممالک بالخصوص انگلستان کے ہتھیاروں کو بھی شامل کیا جائے۔
قابل ذکر ہے کہ ریاض اچھی طرح جانتا ہے کہ یمن میں جنگ کا جاری رہنا کسی بھی لحاظ سے اس کے مفاد میں نہیں ہے، اس کے علاوہ سعودی عرب کے اندر صنعا کی افواج کے دردناک حملوں کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے، خاص طور پر صنعاء کی طاقت روز بروز مضبوط ہوتی جائے گی لہذا ریاض کے لیے بہتر ہے کہ وہ یمن میں امریکہ کی طرف سے لڑی جانے والی یہ جنگ بند کر دے کیونکہ اس کا سوائے شکست کے کوئی فائدہ نہیں۔
آخر میں کیا کہا جا سکتا ہے کہ صنعاء موجودہ صورتحال کو مزید برداشت نہیں کر سکتا لہذا ہمیں سعودی عرب کے خلاف دردناک حملے دیکھنے کو مل سکتے ہیں کیونکہ اگر امریکہ اور سعودی اتحاد یمن کے بحران کے سیاسی حل میں رکاوٹیں ڈالتے رہے تو ڈرونز اور میزائلوں کی باری آئے گی، جن کی تباہ کن طاقت سے سعودی اچھی طرح واقف ہیں۔