سچ خبریں:ریاض کی جانب سے مختلف ممالک کے سیاسی میدان میں فساد برپا کرنے کی کوشش میں مغربی افریقہ سے لے کر مشرقی ایشیا تک حکومتوں کی ایک وسیع رینج شامل ہے۔
حالیہ برسوں میں تخت کے قریب آنے کے بعد، سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے خود کو ایک اصلاح پسند کے طور پر پیش کرنے کی سرتوڑ کوشش کی ہے، یہ بہانہ بنایا ہے کہ سعودی عرب کی روایتی روشیں ختم ہو چکی ہیں اور اب وہ اس ملک کے عوام کو ایک اصلاح پسند کے طور پر پیش کریں گے، آج کے بعد انہیں آزادی بیان اور آزادی عمل دونوں مسیر ہوں گی، وہ بڑے منصوبوں میں جدید یورپی زندگی کی مثالیں پیش کر کے اپنے آپ کو ایک نو لبرل کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش کر ہے لیکن اس حقیقت سے قطع نظر کہ آمرانہ طرز عمل ان کی روح کے ساتھ ملا ہوا ہے، ایک ایسا طرز عمل جو گزشتہ برسوں کے دوران ہر جگہ دیکھنے کو ملا ہے جیسے کی سزاؤں میں اضافہ ، سیاسی مخالفین کی پھانسی، مذہبی اور دینی اقلیتوں کی آزادیوں کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزی، غیر ملکی تارکین وطن، خواتین کے حقوق کی پامالی، اور بدعنوانی کا عام ہونا دیکھنے کو مل رہا ہے۔
دوسری جانب ریاض کے حکام نے اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد سعودی عرب میں اپنی غیر جمہوری حکمرانی کی بقا کے لیے مغربی طاقتوں کی حمایت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ وہابی اور تکفیری نظریات کو فروغ دینے کی بھرپور کوششوں پر رکھی ہے، اس نقطہ نظر کی بنیاد پر سعودی حکام دیگر علاقائی اور بین الاقوامی حکومتوں کے اندرونی معاملات میں وسیع پیمانے پر مداخلت کرتے ہیں یہاں تک کہ یمن سمیت بعض ملکوں میں جنگ بھی چھیڑ رکھی ہے،اس تجزیے میں ہم سعودی حکومت کی متضاد پالیسیوں کی جہتیں اور سعودی حکمرانوں کے طرز عمل میں انسانی اصولوں کی وسیع پیمانے پر پامالی کی تفصیلات کا جائزہ لیں گے۔
بحرین میں سعودی مداخلت
بحرین کی سیاسی حکومت کی نوعیت مشروط بادشاہت ہے،اس ملک کے آئین کے مطابق اگرچہ یہاں تینوں طاقتیں آزاد ہیں لیکن انہیں ایک دوسرے کے فرائض اور اختیارات پر اثر انداز ہونے کی اجازت نہیں ہے، لہذا عملی طور پر اس ملک کی تینوں طاقتیں یہاں کے بادشاہ کی براہ راست نگرانی میں ہیں جو ولی عہد اور وزیر اعظم کے ساتھ مل کر ملک پر حکومت کرتے ہیں،1883 میں جب سے آل خلیفہ خاندان کی بحرین پر حکومت شروع ہوئی ہے اس ملک کی سیاسی تاریخ کا آغاز ہوا ہے اور اس نے ایک مختلف دور کا تجربہ کیا ہے، ایک ایسا دور جس میں سیاسی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی کی کمی ہے جو شروع سے ہی احتجاج اور عوامی بے چینی کا سبب بنی ہے۔
بحرین کی حکومت کا قبائلی کلچر اور شیخ سالاری پر مبنی ہے جبکہ اس ملک کے زیادہ تر لوگ جدید شہری ثقافت رکھتے ہیں جس سے یہاں کے حکومتی ڈھانچے میں قانونی حیثیت کا بحران پیدا ہو گیا ہے، اس گھٹن اور بند سیاسی ماحول کی وجہ سے بحرین کے عوام نے 2011 میں عرب دنیا کے عوام کے ساتھ مل کر سڑکوں پر آکر اپنے ملک کے سیاسی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیوں کا مطالبہ کیا،بحرین کا انقلاب 14 فروری 2011 کو شروع ہوا لیکن اسے سعودی فوجی مداخلت سے دبا دیا گیا جس کے نتیجہ میں اب تک درجنوں افراد ہلاک، سیکڑوں زخمی ہو چکے ہیں، اور ہزاروں لوگوں کو جن میں انقلاب کے رہنما بھی شامل ہیں، جیل بھیج دیا گیا ہے۔
بحرین میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی فوجی مداخلت اس ملک کے عوامی انقلاب کو دبانے کے مقصد سے کی گئی اور اس کے لیے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے 1200 پیادہ فوج اور کئی سو بکتر بند گاڑیاں بحرین بھیجی گئیں، بحرین کے انقلابیوں نے عالمی برادری سے سعودی عرب کی فوجی غیر قانونی مداخلت سے نمٹنے کی درخواست کی جو لاجواب رہی،بحرین میں عوامی تحریک کے آغاز سے ہی سعودی عرب نے اپنے مشرقی علاقوں میں اسلامی بیداری کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سیاسی، عسکری اور مالی تین مراحل پر عمل کرتے ہوئے آل خلیفہ کی جابرانہ حکومت کی حمایت کی۔
بحرین میں سعودی مداخلت کا مقصد اس ملک کی عوامی تحریک کو دبانا تھا جو حکمران نظام کے ظلم کے خلاف شروع ہوئی جس کے نتیجہ میں متعدد مظاہرین شہید ہوئے، اس حقیقت کے باوجود کہ آل خلیفہ حکومت نے دعویٰ کیا کہ غیر فوجی اس ملک میں سرکاری تنصیبات اور اداروں نیز تیل کے کنوؤں کی حفاظت کے لیے داخل ہوئے ہیں لیکن عوامی مظاہروں کو دبانے میں ان فوجیوں کی موجودگی کی واضح دستاویزات نے منامہ حکام کے جھوٹے دعوے کو غلط ثابت کر دیا۔
سعودی عرب کی مداخلت صرفی عوامی مظاہروں کو دبانے میدان میں محدود نہیں تھی بلکہ بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ بحرین نے سعودی عرب کی سبز بتی سے صیہونی حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے،ایک ایسا مسئلہ جس کی بہت سے بحرینی عوام اور آل خلیفہ کے مخالفین نے مخالفت کا اعلان کیا اور کئی بار اسرائیلی حکومت کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات کے خلاف احتجاج کیا،اس حوالے سے Tagus Spiegel اخبار کا خیال ہے کہ ریاض کی حمایت اور گرین لائٹ کے بغیر ایسے معاہدے پر دستخط کرنا ممکن نہیں تھا۔
پاکستان اور افغانستان میں وہابی نظریات کا پھیلاؤ
حالیہ برسوں میں سعودی عرب کی بھاری رقوم سے افغانستان میں سلفیت کا عروج ہوا ہے، سعودی عرب اس سے قبل اس پالیسی کو پاکستان میں نافذ کر چکا ہے، جس میں اسے غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی، یہاں تک کہ القاعدہ جیسی دہشتگرد تنظیم اسی پالیسی سے وجود میں آئی، عدم تحفظ اور افراتفری کی ایک طویل تاریخ اور وہابی مذہبی مکاتب فکر کے اثر و رسوخ نیز القاعدہ اور طالبان جیسی تنظیموں کی موجودگی کی وجہ سے افغانستان اور پاکستان دونوں سعودی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا مرکز بن چکے ہیں،پاکستان میں وہابی طلبہ اور افغانستان میں لاکھوں طلبہ سعودی عرب سے منسلک وہابی اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی تعداد 30 لاکھ سے زیادہ ہے،چند سال قبل افغانستان نے سعودی عرب کی طرف سے کابل میں شاہ عبداللہ کے نام سے ایک اسلامی مرکز کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس مرکز کی تعمیر پر 100 ملین ڈالر لاگت آئی ہے جو پانچ ہزار طلباء کی کفالت کرنے کی گنجائش کے ساتھ قائم کیا گیا ہے۔
وسطی ایشیا، قفقاز اور برصغیر پاک و ہند میں داخل ہونے کی کوشش
سعودی عرب کا قفقاز، آذربائیجان اور وسطی ایشیا میں بھی سرگرم ہونے کے ساتھ ساتھ چیچن میں قتل و غارت گری میں اس کا بڑا کردار رہا ہے،ان سرگرمیوں کی منصوبہ بندی بنیادی طور پر پاکستان اور افغانستان میں ریاض سے وابستہ گروپوں کے ذریعے کی جاتی ہے اور اس کا دائرہ شمالی افریقہ، مشرق وسطیٰ اور برصغیر پاک و ہند کے دور دراز علاقوں تک پہنچتا ہے۔
نتیجہ:
سعودی عرب، مختلف نظریاتی، سیاسی، اقتصادی، فوجی اور تزویراتی سطحوں پر متعدد اہداف کے ساتھ مغربی افریقہ کے مختلف ممالک کے دور دراز علاقوں سے لے کر برصغیر اور مشرقی ایشیا میں ایران، ترکی، قطر یہاں تک کہ متحدہ عرب امارات جیسے علاقائی ممالک کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے، اپنے ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر کی موجودگی اور اثر و رسوخ کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے،اس سلسلے میں، یمن اور بحرین جیسے خطے کے بعض ممالک میں فوجی اور ہارڈویئر مداخلت کے علاوہ، سعودی عرب کے پاس ترقی پذیر ممالک پر اثر انداز ہونے کے لیے بہت سے دیگر اسٹریٹجک منصوبے ہیں، جن میں سے بیشتر کو ملک کے 2030 کے وژن کی شکل میں نئے سرے سے بیان کیا گیا ہے۔
ریاض ٹارگٹ کمیونٹیز کی وسیع غربت اور اپنی داخلی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے مناسب انفراسٹرکچر کی کمی کو مذکورہ بالا حکومتوں اور اقوام پر اپنے اثر و رسوخ کا سب سے اہم ونڈو سمجھتا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ وہ اگلی دہائی میں بڑی سرمایہ کاری کے ذریعے ان ممالک میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کرے گا،ا س تجزیہ میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ سعودی حکومت کی بین الاقوامی سرگرمیوں اور اقدامات کا صرف ایک حصہ ہے جسے آل سعود اپنی اندرونی نقائص، کوتاہیوں اور خرابیوں کی پردہ پوشی کے لیے استعمال کرتی ہے تاکہ اس ملک میں انسانی حقوق کی پامالی ، جبر ، آمریت اور امتیازی سلوک کو دنیا کے سامنے آنے سے روکا جا سکے۔