سچ خبریں:یمن پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے ریاض کے مختلف ذرائع کی ناکامی کے بعد سعودی حکام نے دنیا کے اس غریب ترین ممالک میں سے ایک کے خلاف تاریخ کی ایک سیاہ ترین جنگ کا آغاز کیا۔
حالیہ برسوں میں تخت کے قریب آنے کے بعد، سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے خود کو ایک اصلاح پسند کے طور پر پیش کرنے کی سرتوڑ کوشش کی ہے، یہ بہانہ بنایا ہے کہ سعودی عرب کی روایتی روشیں ختم ہو چکی ہیں اور اب وہ اس ملک کے عوام کو ایک اصلاح پسند کے طور پر پیش کریں گے، آج کے بعد انہیں آزادی بیان اور آزادی عمل دونوں مسیر ہوں گی، وہ بڑے منصوبوں میں جدید یورپی زندگی کی مثالیں پیش کر کے اپنے آپ کو ایک نو لبرل کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش کر ہے لیکن اس حقیقت سے قطع نظر کہ آمرانہ طرز عمل ان کی روح کے ساتھ ملا ہوا ہے، ایک ایسا طرز عمل جو گزشتہ برسوں کے دوران ہر جگہ دیکھنے کو ملا ہے جیسے کی سزاؤں میں اضافہ ، سیاسی مخالفین کی پھانسی، مذہبی اور دینی اقلیتوں کی آزادیوں کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزی، غیر ملکی تارکین وطن، خواتین کے حقوق کی پامالی، اور بدعنوانی کا عام ہونا دیکھنے کو مل رہا ہے۔
دوسری جانب ریاض کے حکام نے اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد سعودی عرب میں اپنی غیر جمہوری حکمرانی کی بقا کے لیے مغربی طاقتوں کی حمایت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ وہابی اور تکفیری نظریات کو فروغ دینے کی بھرپور کوششوں پر رکھی ہے، اس نقطہ نظر کی بنیاد پر سعودی حکام دیگر علاقائی اور بین الاقوامی حکومتوں کے اندرونی معاملات میں وسیع پیمانے پر مداخلت کرتے ہیں یہاں تک کہ یمن سمیت بعض ملکوں میں جنگ بھی چھیڑ رکھی ہے،اس تجزیے میں ہم سعودی حکومت کی متضاد پالیسیوں کی جہتیں اور سعودی حکمرانوں کے طرز عمل میں انسانی اصولوں کی وسیع پیمانے پر پامالی کی تفصیلات کا جائزہ لیں گے۔
یمن میں مداخلت، سیاسی تسلط سے لے کر فوجی کشیدگی تک
یمن میں سعودی عرب کی مداخلت اس ملک میں عوامی انقلاب سے پہلے کی ہے، یعنی جب سعودی عرب کی فوج نے علی عبداللہ صالح کی آمرانہ حکومت کو حوثی شیعوں کو دبانے کے لیے لامحدود امداد فراہم کی تھی،اس جارحیت کی قیادت بھی سعودی فوج نے کی تھی،یمن میں عوامی انقلاب کے آغاز کے ساتھ ہی سعودی عرب جو اس انقلاب کے اپنے ملک تک پھیلنے سے خوفزدہ تھا اور دوسری طرف یمن کی خودمختاری میں اپنے اسٹریٹجک اتحادی کو خطرے میں دیکھ کر اس انقلاب کو نظرانداز کرنے کی صف میں داخل ہوگیا اور امریکہ کے تعاون سے نیز دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے بڑی حد تک اس انقلاب کو بے اثر کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
لہٰذا یمنی انقلاب کو روکنے کے عمل میں جو چیز دیکھنے میں آئی، وہ کچھ اندرونی گروہوں کے ساتھ مل کر اس انقلاب کے عمل کو موڑ دینے اور اسے اپنے کارندوں کے ہاتھوں میں دینے کی سعودی مغربی کوششیں تھیں لیکن نتیجہ اس کے برعکس نکلا اور انصار اللہ کی عوامی تحریک اس ملک کی حکومت کے ستونوں کو ریاض سے وابستہ کرنٹوں کے ہاتھوں سے اکھاڑ پھینکنے میں کامیاب ہوگئی،یمن کے عوامی انقلاب کو روکنے میں ریاض کی ناکامی اس ملک پر فوجی حملے کا باعث بنی، اس سلسلے میں سعودی حکام نے القاعدہ تنظیم کو گرین سگنل دے دیا جس کے بعد اس کرائے کی دہشت گرد تنظیم نے خود کو یمن کے اندرونی حصوں میں منتقل ہونے کے لیے تیار کر لیا۔
یمن پر حملہ جنگی جرائم اور انسانیت سوز
حالیہ برسوں میں سعودی عرب کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ایک اہم ترین پہلو یمن کے خلاف اس ملک کی بزدلانہ جارحیت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جسے اگرچہ انسانی حقوق کی بعض تنظیموں کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے، لیکن بااثر عالمی اداروں کی جانب سے اس سلسلہ میں کوئی قابل ذکر موقف اختیار نہیں کیا گیا جس کے نتیجہ میں جنگجوؤں جدید ترین مغربی ہتھیاروں کے ساتھ یمن کا تقریباً تمام اقتصادی ڈھانچہ ، اہم تجارتی اور ثقافتی مراکز، ہسپتالوں، اسکولوں، یہاں تک کہ گندم کے گوداموں یہاں تک کہ اپنے پڑوسی اور غریب ترین عرب ملک کے لوگوں کے کھانے پینے کی اشیاء کو تباہ کر دیا،رہائشی علاقوں پر مسلسل حملوں میں ہزاروں بے دفاع یمنی مارے گئے، لاکھوں لوگ تباہ اور بے گھر ہوئے۔
یمن پر سعودی جارحیت کے بارے میں شائع ہونے والی تازہ ترین رپورٹ میں، عین الانسانیہ مرکز برائے انسانی حقوق نے یمنی جنگ کے آخری 2800 دنوں کے دوران انسانیت کے خلاف سعودیوں کے جرائم کے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا، اس رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اس عرصے کے دوران سعودی حملوں میں کم از کم 47673 یمنی شہید یا زخمی ہوئے جن میں سے 18013 شہید اور 29660 زخمی ہوئے، شہید ہونے والوں میں سے کم از کم 4061 اور زخمی ہونے والوں میں 4739 بچے ہیں نیز شہید ہونے والوں میں 2454 اور زخمیوں میں 2966 خواتین شامل ہیں۔
اس شماریاتی رپورٹ کے مطابق سعودی حکومت نے اپنی تقریباً 3000 روزہ جارحیت کے دوران 598737 مکانات 182 یونیورسٹیاں ،1679 مساجد، 379 سیاحتی کمپلیکس اور 415 ہسپتال یا کلینک کو تباہ کیا، اسی طرح سعودی حملوں کے نتیجے میں 1242 اسکول اور تعلیمی مراکز، 140 کھیلوں کے بنیادی ڈھانچے، 255 قدیم یادگاریں، 61 میڈیا کمپلیکس اور 10803 زرعی زمینیں بھی تباہ ہوئی ہیں، مذکورہ مرکز نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ اس عرصے کے دوران سعودی جنگی طیاروں نے 15 ہوائی اڈوں، 16 بندرگاہوں، 344 بجلی پیدا کرنے والے اسٹیشنوں کے ساتھ ساتھ 7099 سڑکوں اور پلوں کو بھی تباہ کیا ہے، سعودیوں نے 616 مواصلاتی نیٹ ورک، 2974 واٹر سپلائی نیٹ ورک اور 2101 سرکاری تنصیبات کو بھی تباہ کر دیا ہے جبکہ معیشت کے لحاظ سے سعودی جارح طیاروں نے 407 ورکشاپس، 385 فیول ٹینکرز، 12030 تجارتی مراکز اور 454 لائیو سٹاک اور پولٹری فارمز کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ 10112 سے زائد گاڑیاں، 998 فوڈ ٹرک، 700 مارکیٹیں، 485 اسٹوریج کو تباہ کیا ہے۔
بین الاقوامی ادارے؛ بیان کے سوا کچھ نہیں
اگرچہ بین الاقوامی تنظیمیں یمن میں سعودی اتحاد کی جارحیت کے نتائج کے بارے میں واضح اعدادوشمار فراہم کرنے میں اپنی ذمہ داری سے پیچھے نہیں ہٹ سکتیں، لیکن انہوں نے کبھی بھی ایسا کوئی قابل ذکر قدم نہیں اٹھایا کہ ریاض سے جنگ روکنے کا مطالبہ کیا ہو، اگست میں اقوام متحدہ نے یمن میں بے گھر ہونے والوں کی تعداد 4.3 ملین بتائی اور بتایا کہ ان میں سے ایک تہائی مشکل حالات میں زندگی گزار رہے ہیں جب کہ اس ملک میں 23 ملین سے زائد افراد کو کسی نہ کسی طرح سے انسانی امداد اور تحفظ کی ضرورت ہے،اقوام متحدہ نے یہ بھی پیش گوئی کی کہ یمن میں ایسے افراد کی تعداد جو دسمبر میں خوراک کے عدم تحفظ کی صورت حال سے دوچار ہیں ان کی تعداد بڑھ کر 19 ملین ہو جائے گی۔
یمن پر حملے کی ساتویں برسی کے موقع پر ایک رپورٹ میں یونیسیف نے اعلان کیا کہ اس ملک کے 12 ملین سے زائد بچوں کو انسانی امداد کی اشد ضرورت ہے، اس رپورٹ کے مطابق ملک کے بعض علاقوں میں یمنی بچوں کی شدید غذائی قلت کی شرح نے نیا ریکارڈ قائم کیا ہے جس میں اس سال 10 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ 5 سال سے کم عمر کے تقریباً 325000 یمنی بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں اور زندہ رہنے کی جنگ لڑ رہے ہیں، دائمی غربت، کئی دہائیوں کی پسماندگی اور 7 سال سے زیادہ کی مسلسل جنگ نے یمنی بچوں اور ان کے خاندانوں کو تشدد اور بیماری کے مہلک امتزاج سے دوچار کر دیا ہے۔ انصاف ہیومن رائٹس آرگنائزیشن نے بھی 2020 میں ایک رپورٹ جاری کرتے ہوئے اعلان کیا کہ صرف 2019 میں پیدا ہونے والے 1122781 بچوں میں سے تقریباً 30000 بچے مردہ پیدا ہوئے، یعنی اس محاصرے اور ظالمانہ جارحیت کی وجہ سے ہر گھنٹے میں تین یمنی بچے مر رہے ہیں۔