سچ خبریں: امریکی ایوان نمائندگان میں منظور ہونے والی قرارداد کے خلاف قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے اپنی قرارداد منظور کر لی۔
قومی اسمبلی میں یہ قرارداد رکن اسمبلی شائستہ پرویز ملک نے پیش کی۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ایوان، امریکی ایوان نمائندگان کی قرارداد پر گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے، خاص طور پر فروری 2024 کے انتخابات میں پاکستانی ووٹروں کے حقوق کے حوالے سے دیے گئے بیانات پر۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان امریکہ کی ایک ریاست ہے یا خودمختار ملک؟؛ رضا ربانی کی زبانی
قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ امریکی قرارداد مکمل طور پر حقائق پر مبنی نہیں ہے، اور پاکستان ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے جو اپنے اندرونی معاملات میں کسی بھی مداخلت کو برداشت نہیں کرے گا۔
متن میں مزید کہا گیا کہ ایوان امریکا اور عالمی برادری سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ غزہ اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کی مشکلات کا نوٹس لیں۔ امریکی کانگریس کو غزہ اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر توجہ دینی چاہیے۔
قرارداد میں مزید کہا گیا کہ ایوان امریکا کے ساتھ برابری کی سطح پر باہمی تعلقات کو فروغ دینے کا خواہاں ہے اور مستقبل میں امریکی ایوان نمائندگان سے مثبت کردار کی توقع رکھتا ہے۔
سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے اس قرارداد کی مخالفت کی اور ایوان میں شدید نعرے بازی کی۔
امریکی قرارداد:
واضح رہے کہ 26 جون کو امریکی ایوان نمائندگان نے 8 فروری 2024 کو پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات میں ووٹنگ کے بعد دھاندلی کے الزامات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی حمایت میں قرارداد کو بھاری اکثریت سے منظور کیا تھا، اور جنوبی ایشیا کے اس ملک کے جمہوری عمل میں عوام کی شمولیت پر زور دیا تھا۔
انتخابات میں دھاندلی کے معاملے کو سب سے زیادہ زور و شور سے سابق وزیر اعظم عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اٹھایا، جن کے رہنماؤں کو اپنا انتخابی نشان ‘بلا’ چھن جانے کی وجہ سے عام انتخابات میں آزاد حیثیت سے حصہ لینا پڑا۔ قانونی جنگ کے بعد الیکشن اتھارٹی نے پارٹی کے اندرونی انتخابات کو غلط قرار دیا۔
مزید پڑھیں: امریکی قرارداد کے جواب میں ہم کیا کریں گے؟ اسحاق ڈار کا ردعمل
قرارداد میں پاکستان کے عوام کو ملک کے جمہوری عمل میں شرکت کی کوششوں کو دبانے کی مذمت کی گئی۔ ان کوششوں میں ہراساں کرنا، دھمکانا، تشدد، بلاجواز حراست، انٹرنیٹ اور مواصلاتی ذرائع تک رسائی میں پابندیاں، یا ان کے انسانی، شہری اور سیاسی حقوق کی خلاف ورزی شامل ہیں۔