جیل کی ہوا کھانے والے ہمارے بڑے سیاسی رہنما

جیل کی ہوا کھانے والے ہمارے بڑے سیاسی رہنما

🗓️

سچ خبریں: آج پاکستان تحریک انصاف کے بانی سربراہ عمران خان کا جیل میں ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔

پاکستان کی تاریخ سیاسی رہنماؤں کی قید و بند کی داستانوں سے بھری ہوئی ہے، یہ سلسلہ قیام پاکستان کے فوری بعد ہی شروع ہو گیا تھا، اب تک پاکستان کے سات وزرائے اعظم سمیت متعدد سیاسی جماعتوں کے سربراہان، درجنوں وفاقی وزرا، سیاسی رہنما اور سینکڑوں کارکنان جیل کاٹ چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: عام انتخابات 2024: معروف سیاسی رہنماؤں کے درمیان کانٹے دار مقابلہ متوقع

اس وقت بھی ملک کے سابق وزیراعظم عمران خان، ان کی اہلیہ بشریٰ بیگم، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت تحریک انصاف کے کئی درجن رہنما اور کارکنان جیلوں میں موجود ہیں۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی جماعت کی حکومت جانے کے بعد اس حکومت کے سربراہ، وزرا اور کارکنان کو جیلوں میں ڈالا گیا ہے بلکہ پاکستان میں یہ ریت بہت پرانی ہے، حکومت پر تنقید کو ریاست مخالف بنا کر سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریوں اور قید کا سلسلہ تو قیام پاکستان کے اگلے سال ہی شروع ہو گیا تھا۔

1948 میں خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان کو ریاست کے خلاف بیان دینے کے جرم میں گرفتار کر کے کوہاٹ جیل میں قید کیا گیا، 60 کی دہائی میں خان عبدالغفار خان کو دوبارہ گرفتار کرکے راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل میں رکھا گیا۔

1953 میں جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی اور ان کی جماعت کے سرکردہ رہنماؤں کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمہ چلایا گیا، مولانا مودودی کو لاہور اور ملتان میں قید میں رکھا گیا اور انھیں پھانسی کی سزا سنائی گئی، تاہم اس پر عمل درآمد نہیں کیا جا سکا تھا، مولانا مودودی کے علاوہ مولانا عبدالستار نیازی کو بھی گرفتار کرکے جیل میں ڈالا گیا تھا۔

60 ہی کی دہائی میں پاکستان میں کسی سابق وزیراعظم کی پہلی گرفتاری عمل میں لائی گئی جب حسین شہید سہروردی کو گرفتار کیا گیا، حسین شہید سہروردی، جو پاکستان کے پانچویں وزیراعظم (ستمبر 1956 تا اکتوبر 1957) تھے، نے جنرل ایوب خان کے حکومت پر قبضے کی توثیق کرنے سے انکار کر دیا۔

الیکٹیو باڈیز ڈس کوالیفیکیشن آرڈر (ایبڈو) کے ذریعے ان کی سیاست پر پابندی عائد کر دی گئی اور بعد میں جولائی 1960 میں ایبڈو کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا، جنوری 1962 میں انہیں گرفتار کر لیا گیا اور من گھڑت الزامات پر بغیر مقدمہ چلائے کراچی کی سینٹرل جیل میں قید تنہائی میں ڈال دیا گیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دو ایسی جماعتیں ہیں جن کے پورے پورے خاندان نے کئی کئی سال جیلوں میں گزارے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے بانی اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تو پھانسی دے دی گئی تھی۔

سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریوں اور انہیں سزائیں سنانے سے ملک کو کیا فائدہ ہوا اس کے بارے میں تو کچھ واضح نہیں ہو سکا، البتہ سیاسی قیادت کو قید کرنے سے ملک میں سیاسی ہم آہنگی، سیاسی مکالمے اور ملکی امور پر وسیع تر مشاورت کے دروازے مسلسل بند ہوتے گئے، اس کے باوجود یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور سابق حکومت کی قیادت اور کارکنان مقدمات کا سامنا کرتے ہوئے جیلوں میں موجود ہیں۔

تحریک انصاف کے جیل کاٹنے والے رہنما کون ہیں؟

تحریک انصاف اقتدار سے باہر نکلنے کے بعد مسلسل مقدمات کا سامنا کر رہی ہے، لیکن اس میں اضافہ سابق وزیراعظم عمران خان کی 9 مئی 2023 کو گرفتاری کے بعد ہوا۔

عمران خان

سابق وزیراعظم عمران خان کو پہلے 9 مئی کو گرفتار کیا گیا لیکن 11 مئی کو سپریم کورٹ کی مداخلت پر انہیں رہا کر دیا گیا، تاہم، اگست 2023 میں اسلام آباد کی مقامی عدالت نے انہیں تین سال کی سزا سنائی اور انہیں زمان پارک لاہور سے گرفتار کر لیا گیا، تقریباً ایک سال گزرنے کے باوجود وہ ابھی تک جیل میں موجود ہیں۔

اس دوران انہیں سائفر کیس اور عدت کے دوران نکاح کیس میں بھی سزائیں سنائی گئیں، عدت نکاح کیس میں ان کی اہلیہ کو بھی دس سال کی سزا سنائی گئی تھی، اگرچہ ان تینوں مقدمات میں عدالتوں کی جانب سے ان کی سزائیں کالعدم قرار دے کر انہیں بری کر دیا گیا ہے، تاہم انہیں دیگر مقدمات میں تحویل میں رکھا گیا ہے، واضح رہے کہ عمران خان پر ملک بھر میں 200 کے قریب مقدمات درج ہیں۔

شاہ محمود قریشی

پاکستان کے سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں گرفتار کیا گیا تھا اور بعد ازاں انہیں دس سال قید کی سزا سنائی گئی۔ وہ تقریباً ایک سال سے قید میں ہیں، سزا معطلی کے باوجود انہیں نو مئی سے متعلق مقدمات میں دوبارہ گرفتار کیا گیا ہے۔

پرویز الٰہی

سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کو جب لاہور سے حراست میں لیا گیا تو توقع تھی کہ وہ چند روز میں باہر آ کر پریس کانفرنس کریں گے۔ لیکن خلاف توقع، پرویز الٰہی یکم جون 2023 سے مئی 2024 تک مسلسل حراست میں رہے۔

گرفتار صوبائی رہنما کون کون ہیں؟

ڈاکٹر یاسمین راشد، سابق صوبائی وزیر، جن کی عمر 70 برس سے زائد ہے اور وہ کینسر کی مریضہ ہیں، نو مئی کے بعد سے گرفتار ہیں اور اب تک جیل میں موجود ہیں۔ ان کے علاوہ میاں محمود الرشید، سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ، سینیٹر اعجاز چوہدری اور کئی دیگر رہنما نو مئی کے مقدمات میں گرفتار ہیں۔

عمران خان کے بھانجے حسان نیازی سمیت درجنوں افراد فوجی عدالتوں میں مقدمات کے باعث ملٹری کی تحویل میں ہیں، نو مئی کے مقدمات میں 22 رہنماؤں سمیت 260 سے زائد کارکنان کو اشتہاری قرار دیا گیا ہے۔

پیپلز پارٹی کے جیل جانے والے رہنما کون کون سے ہیں؟

پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو، ان کی اہلیہ نصرت بھٹو، صاحبزادی بے نظیر بھٹو، داماد آصف علی زرداری سمیت کئی رہنماؤں اور کارکنوں نے ضیا الحق، نواز شریف، پرویز مشرف اور عمران خان کے دور حکومت میں جیل کاٹی ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو

ذوالفقار علی بھٹو اگست 1973 سے جولائی 1977 تک پاکستان کے وزیراعظم رہے، ان پر قتل کا الزام لگا کر گرفتار کیا گیا لیکن لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس خواجہ محمد احمد صمدانی نے یہ کہہ کر کہ ان کی گرفتاری کا کوئی قانونی جواز نہیں تھا،انہیں رہا کر دیا، تاہم، مارشل لا ریگولیشن 12 کے تحت تین دن بعد انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔

اس قانون کے تحت امن و امان یا مارشل لا کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کے جرم میں پولیس کسی کو بھی گرفتار کر سکتی تھی اور اس قانون کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا۔ بالآخر بھٹو کو موت کی سزا سنائی گئی اور 4 اپریل 1979 کو پھانسی دے دی گئی۔

بے نظیر بھٹو

بے نظیر بھٹو دو بار پاکستان کی وزیراعظم رہیں (دسمبر 1988 تا اگست 1990 اور اکتوبر 1993 تا نومبر 1996)۔ ضیا الحق کی آمریت (1977-1988) کے دوران بے نظیر بھٹو نے بطور اپوزیشن لیڈر خدمات انجام دیں۔

اگست 1985 میں اپنے بھائی کی آخری رسومات کے لیے پاکستان آنے پر انہیں 90 دن تک گھر میں نظر بند رکھا گیا، 1986 میں بے نظیر بھٹو کو کراچی میں یوم آزادی پر ریلی میں حکومت پر تنقید کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔

بعد کے واقعات

مئی 1998 میں لاہور ہائی کورٹ کے احتساب بینچ نے بے نظیر بھٹو کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے، جبکہ جولائی 1998 میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے بھی ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔ اپریل 1999 میں بے نظیر بھٹو کو سوئس کمپنی سے کک بیکس لینے کے الزام میں احتساب بینچ نے پانچ سال قید کی سزا سنائی اور عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دیا، فیصلے کے وقت وہ ملک میں نہیں تھیں اور بعد میں ایک اعلیٰ عدالت نے سزا کو کالعدم کر دیا تھا۔

آصف زرداری

آصف زرداری ملکی تاریخ میں دو مرتبہ صدر کا عہدہ سنبھالنے والی پہلی شخصیت ہیں اور 14 سال کا عرصہ جیل میں گزار کر طویل عرصہ تک جیل میں رہنے والے سیاسی قیدی کا اعزاز بھی ان کو حاصل ہے۔

آصف زرداری پہلی مرتبہ 1990 میں جیل گئے اور 1993 میں رہا ہوئے، جس کے بعد سیدھے ایوان صدر گئے جہاں انہوں نے نگراں کابینہ میں بطور وزیر حلف اٹھایا، 4 نومبر 1996 کو آصف علی زرداری کو دوبارہ گرفتار کیا گیا۔

2004 میں تقریباً آٹھ سال جیل میں گزارنے کے بعد انہیں رہا کیا گیا، زرداری کے مطابق اس دوران انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ان کی قید کا اختتام اس وقت ہوا جب اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے ملک میں سیاسی مفاہمت کے لیے قومی مفاہمتی آرڈیننس (این آر او) کی منظوری دی۔

عمران خان کے دور حکومت میں انہیں جعلی اکاؤنٹس کیس میں گرفتار کیا گیا اور بعد ازاں عدالت نے انہیں طبی بنیادوں پر ضمانت پر رہا کیا۔

پیپلز پارٹی کے دیگر جیل جانے والے رہنما

پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے خاندان کے علاوہ موجودہ چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی، سابق وفاقی وزیر سید خورشید شاہ، سید نوید قمر، سپیکر صوبائی اسمبلی آغا سراج درانی، صوبائی وزیر شرجیل میمن سمیت متعدد رہنما بھی جیلیں کاٹ چکے ہیں۔

مسلم لیگ ن کے جیل کاٹنے والے رہنما

پاکستان مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے بھائی شہباز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور بھتیجے حمزہ شہباز نے بھی جیل کاٹی ہے، ان کے علاوہ جماعت کے درجنوں سابق وفاقی و صوبائی وزراء بھی جیل میں رہ چکے ہیں۔

نواز شریف

سابق وزیراعظم نواز شریف تین مرتبہ وزیراعظم رہ چکے ہیں، 12 اکتوبر 1999 کو پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کرکے نواز شریف کو حراست میں لیا اور ان پر طیارہ اغوا کا کیس بنایا گیا، جس کے تحت انہیں 25 سال کی سزا سنائی گئی۔

تاہم، نواز شریف 425 دن جیل میں گزارنے کے بعد ایک معاہدے کے تحت جدہ روانہ ہو گئے تھے۔

2017 میں بھی اقتدار سے نکالے جانے کے بعد، پانامہ کیس کے نتیجے میں بننے والے ایون فیلڈ ریفرنس میں 6 جولائی 2018 کو احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم کو ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر سمیت قید و جرمانے کی سزا سنائی۔

میاں نواز شریف اور مریم نواز نے 69 دن جبکہ کیپٹن صفدر نے 74 دن اڈیالہ جیل میں گزارے۔ 19 ستمبر 2018 کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے احتساب عدالت کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے تینوں کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا۔

بعد ازاں العزیزیہ ریفرنس میں بھی احتساب عدالت نے نواز شریف کو سات سال کی سزا سنائی اور دوبارہ جیل بھیج دیا۔ وہاں 239 دن جیل میں گزارنے کے بعد انہیں طبی بنیادوں پر چار ہفتے کی ضمانت ملی اور وہ لندن روانہ ہو گئے۔ چار سال بعد وہ واپس لوٹے۔

شہباز شریف

شہباز شریف اس وقت پاکستان کے وزیراعظم ہیں اور انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ مسلسل دوسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں۔

وزیراعظم بننے سے پہلے، بحیثیت اپوزیشن لیڈر، انہوں نے طویل عرصہ جیل میں گزارا، عمران خان کے دور حکومت میں شہباز شریف نے کم و بیش سات ماہ نیب تحویل اور جیل میں گزارے جبکہ مشرف دور میں بھی انہیں گرفتار کرکے اڈیالہ جیل میں رکھا گیا تھا۔

مریم نواز

موجودہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کو ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے شوہر کیپٹن صفدر کے ہمراہ سزا سنائی گئی تھی۔

انہوں نے اپنے والد کے ساتھ لندن سے آکر گرفتاری دی تھی اور تقریباً اڑھائی مہینے جیل میں رہیں، اس دوران ان کی والدہ کا انتقال بھی ہوا اور وہ پیرول پر رہا ہو کر ان کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے گئیں۔

عمران خان کے دور حکومت میں مریم نواز کی گرفتاری

عمران خان کے دور حکومت کے دوران، اگست 2019 میں نیب نے مریم نواز کو چوہدری شوگر ملز کیس میں گرفتار کر لیا۔

یہ گرفتاری کوٹ لکھپت جیل میں اس وقت عمل میں لائی گئی جب مریم نواز اپنے کزن یوسف عباس کے ہمراہ جیل میں قید اپنے والد نواز شریف سے ملاقات کے لیے موجود تھیں۔

حمزہ شہباز

سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کے صاحبزادے اور نواز شریف کے بھتیجے حمزہ شہباز بھی ان سیاسی قیدیوں میں شامل ہیں جنہوں نے طویل عرصے تک صبر کے ساتھ جیل کاٹی۔

مزید پڑھیں: سیاسی رہنما کیسے رہا ہو سکتے ہیں؟؛عمر ایوب کی زبانی

حمزہ شہباز نے عمران خان کے دور حکومت میں بیس ماہ سے زائد عرصہ جیل میں گزارا، جو عمران خان کے دور میں کسی بھی سیاسی رہنما کی سب سے طویل حراست سمجھی جاتی ہے، حمزہ شہباز مشرف دور میں بھی کئی ماہ تک جیل میں رہے۔

2000 میں جب شریف خاندان ملک بدر ہوا، حمزہ شہباز کو پاکستان میں خاندانی کاروبار اور معاملات دیکھنے کے لیے ملک میں ہی رہنے دیا گیا۔

مسلم لیگ ن کے دیگر رہنما

شریف خاندان کے علاوہ، مسلم لیگ ن کے سابق رہنما جاوید ہاشمی اور شاہد خاقان عباسی نے بھی مشرف دور میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔

شاہد خاقان عباسی کو عمران خان کے دور حکومت میں مفتاح اسماعیل کے ہمراہ گرفتار کیا گیا۔

مزید گرفتاریاں

مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت میں سے خواجہ آصف، رانا ثناء اللہ، خواجہ سعد رفیق، احسن اقبال، خواجہ سلمان رفیق اور کئی دیگر رہنما بھی مختلف ادوار میں گرفتار ہوئے۔

مشہور خبریں۔

دہشتگردی کی بزدلانہ کاروائی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں: وزیراعظم

🗓️ 26 اپریل 2022اسلام آباد (سچ خبریں) وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ دھماکے میں ملوث

یوکرینی صدر کی سب سے بڑی آرزو کیا ہے؟

🗓️ 24 جنوری 2024سچ خبریں: کریملن پیلس کے ترجمان نے یوکرین کے صدر کے روس

جنوبی وزیرستان: سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں 8 دہشت گرد ہلاک

🗓️ 17 مارچ 2023خیبرپختونخوا:(سچ خبریں) خیبرپختونخوا کے ضلع جنوبی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز کی جانب

سعودی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی

🗓️ 3 دسمبر 2022سچ خبریں:سعودی میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ ماہ کے دوران سعودی عرب

بِٹ کوائن ڈکیتی کرنے والے دونوں ملزم گوجرانوالا سے ہوئے گرفتار

🗓️ 19 فروری 2021گوجرانوالا {سچ خبریں} ملکی تاریخ میں جاری ماہ فروری میں پنجاب کی

صنعاء میں غزہ اور مسجد اقصیٰ کی مدد کے لیے لاکھوں مظاہرے

🗓️ 30 اگست 2024سچ خبریں: یمن میں مارچ کی آرگنائزنگ کمیٹی نے اس ملک کے

آئنسٹائن کو اسرائیلی صدارت کی پیش کش اور ان کا منطقی انکار

🗓️ 13 مارچ 2021برلن (سچ خبریں) البرٹ آئنسٹائن کو بیسویں صدی کا سب سے بڑا

امریکی پارلیمنٹ ممبرکا دو دہائیوں تک افغان شہریوں کے قتل عام کی تحقیقات کا مطالبہ

🗓️ 22 ستمبر 2021سچ خبریں:امریکی فوج کی جانب سے اگست میں کابل میں مہلک ڈرون

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے