اسلام آباد:(سچ خبریں) فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں کی سماعت کے لیے تشکیل دیے گئے 9 رکنی لارجر بینچ سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود کے علیحدہ ہونے کے بعد 7 رکنی بینچ نے سماعت کا دوبارہ آغاز کردیا۔
7 رکنی لارجر بینچ جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل ہے۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ موسم گرما کی تعطیلات چل رہی ہیں اس لیے تمام فریقین دلائل مختصر رکھیں، چھٹیوں میں بھی کچھ بینچ صوبائی رجسٹریوں میں جاتے تھے، ان ساری باتوں کو ذہن میں رکھیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اگر کسی کو اس بینچ پر اعتراض ہے تو پہلے بتا دیں، اعتزاز احسن نے کہا کہ کسی کو اس بینچ پر اعتراض نہیں، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ ہمیں بھی بینچ پر اعتراض نہیں۔
اس دوران چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین روسٹرم پر آگئے، انہوں نے کہا کہ ہماری درخواست پر کچھ اعتراضات لگائے گئے تھے، جواب میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کی درخواست میں کچھ سیاسی نوعیت کی استدعائیں موجود تھیں، ابھی ہم وہ سننا نہیں چاہتے، ابھی فوکس ملٹری کوٹس ہیں۔
شعیب شاہین نے کہا کہ ہماری درخواست بھی ساتھ ہی رکھ لیں، ہو سکتا ہے ملٹری کورٹس کے علاوہ دیگر استدعائیں ہم نہ مانگیں، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم آپس میں مشاورت کر کے دیکھیں گے۔
دریں اثنا اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 245 نافذ ہونے کے بعد ہائی کورٹس کا 199 کا اختیار ختم ہو گیا ہے، اس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ فوج طلبی کا وہ نوٹیفیکیشن واپس ہو چکا۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں کہا گیا 9 مئی کے ناقابل تردید شوہد ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پریس ریلیز میں کہا گیا کہ ناقابل تردید شواہد موجود ہیں اس لیے ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہو گا؟
لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ جی پریس ریلیز میں یہی کہا گیا، دریں اثنا انہوں نے عدالت میں پریس ریلیز پڑھ کے سنا دی۔
چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے کہا کہ آپ صرف متعلقہ پیراگراف پڑھیں، اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ متعلقہ پیراگراف میں کہا گیا کہ ذمہ داروں کو آرمی ایکٹ کے تحت جلد کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں چل رہا ہے؟ لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ بالکل سویلینزکا ٹرائل فوجی عدالتوں میں شروع ہوچکا ہے، قومی سلامتی اجلاس کےاعلامیے میں ناقابل تردید شواہد موجود ہونےکا کہا گیا، سویلینزکا ٹرائل یا تو کوئی کرنل کرے گا یا پھربریگیڈیئر۔
جسٹس منصورعلی نے استفسار کیا کہ یہ جوآپ پڑھ رہے ہیں اس میں آئی ایس پی آرکانام کہاں لکھا ہے؟ لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ آئی ایس پی آرکا ہی جاری کردہ اعلامیہ ہے، کابینہ نے آئی ایس پی آرکے اعلامیے کی کھل کرتوثیق کی، ملک کی تمام ملٹری قیادت نے بیٹھ کر فیصلہ دے دیا ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا یہ دستاویز ان کی ویب سائٹ پر موجود ہیں، لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ آئی ایس پی آر کی ویب سائٹ پر موجود ہیں، فارمیشن کمانڈر نے کہہ دیا ناقابل تردید شواہد ہیں تو ایک کرنل اب ٹرائل میں کیا الگ فیصلہ دے گا؟ یہ نہیں کہتا کہ 9 مئی کے ذمہ داروں کو چھوڑ دیا جائے،کہیں بھی کسی بھی حملے کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانا چاہیے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ یہ سب بیانات ہیں ہمیں دکھائیں کہ ٹرائل کہاں شروع ہوا، دریں اثنا لطیف کھوسہ نے انسداد دہشتگردی عدالتوں سے ملزمان کی حوالگی کے فیصلے پڑھنا شروع کردیے۔
قبل ازیں فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف دائر 4 درخواستوں پر آج چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی زیرسربراہی 9 رکنی بینچ نے سماعت کا آغاز کیا تھا۔
9 رکنی لارجر بینچ جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل تھا۔
سماعت کے آغاز پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اٹارنی جنرل آپ روسٹرم پر آئیں، کچھ کہنا چاہتا ہوں، عدالتوں کو سماعت کا دائرہ اختیار آئین کی شق 175 دیتا ہے، صرف اور صرف آئین عدالت کو دائرہ سماعت کا اختیار دیتا ہے، ہر جج نے حلف اٹھایا ہے کہ وہ آئین اور قانون کے تحت سماعت کرے گا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید ریمارکس دیے کہ واضح کرنا چاہتا ہوں کل مجھے تعجب ہوا کہ رات کو کاز لسٹ میں نام آیا، مجھے اس وقت کاز لسٹ بھجی گئی، پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کو قانون بننے سے پہلے 8 رکنی بنچ نے روک دیا تھا، اس قانون کا فیصلہ نہیں ہوا اس لیے اُس پر رائے نہیں دوں گا، اس سے پہلے ایک تین رکنی بینچ جس کی صدرات میں کررہا تھا 5 مارچ کو کررہا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید ریمارکس دیے کہ 5 مارچ والے فیصلے 31 مارچ کو ایک سرکولر کے ذریعے فیصلے کو ختم کردیا جاتا ہے، ایک عدالت فیصلے کو رجسٹرار کی جانب سے نظر انداز کیا گیا یہ عدالت کے ایک فیصلے کی وقعت ہے، پہلے اس سرکولر کی تصدیق کی جاتی ہے پہر اس سرکولر کو واپس لیا جاتا ہے۔
ریمارکس کا سلسہ جاری رکھتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ غلطی ہوتی ہے ہم انسان ہیں، مجھ سے بھی غلطی ہوسکتی ہے، اس پر 8 اپریل کو میں نے نوٹ لکھا جو ویب سائیٹ پر لگا پھر ہٹا دیا گیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید ریمارکس دیے کہ قوانین میں ایک قانون پریکٹس اینڈ پروسیجر بھی ہے، اس قانون کے مطابق بینچ کی تشکیل ایک میٹنگ سے ہونی ہے، اس قانون کو بل کی سطح پر ہی روک دیا گیا، اس پر معزز چیف جسٹس نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا چیمبر ورک کرنا چاہتا ہوں۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ اس 6 رکنی بنچ میں اگر نظر ثانی تھی تو مرکزی کیس کا کوئی جج شامل کیوں نہیں تھا، اس 6 رکنی بینچ میں اگرنظرثانی تھی تومرکزی کیس کا کوئی جج شامل کیوں نہیں تھا؟ میں اس بینچ کو ’بینچ‘ تصور نہیں کرتا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ میں اس وقت تک کسی بینچ میں نہیں بیٹھ سکتا جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیس کا فیصلہ نہیں ہوتا، میں معذرت چاہتا ہوں، ججز کو زحمت دی، میں اس بینچ سے اٹھ رہا ہوں لیکن سماعت سے انکار نہیں کررہا، میں اس پر مزید بحث نہیں سن سکتا۔
جسٹس طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ میں قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ اتفاق کرتا ہوں، ہم ان درخواستوں پر فیصلہ کریں گے، پہلے ان درخوستوں کو سنا جائے، اگر اس کیس میں فیصلہ حق میں آتا ہے تو اس کیس کی اپیل 8 جج کیسے سنیں گے؟
سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ معاملہ 25 کروڑ عوام کا ہے، اس پر جسٹس طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ یہ معاملہ جب آئے گا تو دیکھ لیں گے۔
ایڈووکیٹ اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کیس نہیں سنیں گے تو 25 کروڑ عوام کا کیا ہوگا، ہم چاہتے تھے کہ ایک گھر کی طرح مسائل سائیڈ پر رکھ کر سماعت کی جائے، جواب میں جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کسی کا گھر نہیں ہے، عدالت ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق کی جانب سے خود کو 9 رکنی بینچ سے علیحدہ کرنے کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہمارے 2 ججز نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی بنیاد پر اعتراض کیا ہے لیکن ان کو یہ معلوم نہیں کہ اس کیس میں اٹارنی جنرل نے وقت لیا ہے، کیا پتا اس میں اسٹے ختم ہو، ہوسکتا ہے اس کیس میں مخلوق خدا کے حق میں فیصلہ ہو۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس کیس میں بیٹھ کر سماعت کریں، یہ اہم کیس ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے کیس کا کوئی اور حل کرتے ہیں، ہم نے بھی یہ بینچ اپنے آئین کے تحت قسم کے مطابق بنایا، ہم یہاں مخلوق خدا کے حق میں فیصلے کرنے کے لیے بیٹھے ہیں۔
دریں اثنا سپریم کورٹ کا لارجر بینچ کمرہ عدالت سے اٹھ کر چلاگیا، عدالتی عملے کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کے بینچ میں نہ بیٹھنے کے باوجود چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کیس سننے کا فیصلہ کر لیا، بعدازاں 7 رکنی بینچ نے ڈیڑھ بجے دوبارہ کیس کی سماعت کا آغاز کیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف دائر 4 درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے اپنی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔
چیئرمین پی ٹی آئی، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، معروف قانون دان اعتزاز احسن اور سول سائٹی کی جانب سے عام شہریوں مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔
20 جون کو جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے وکیل ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین کے توسط سے دائر درخواست میں سپریم کورٹ سے فوجی عدالتوں کے ذریعے شہریوں کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کی تھی۔
وکیل عزیر چغتائی کے توسط سے عدالت عظمیٰ میں دائر کی گئی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عام عدالتیں ہوتے ہوئے ملٹری عدالتوں کے ذریعے عام شہریوں کا ٹرائل غیر آئینی قرار دیا جائے اور آرمی ایکٹ کے مختلف سیکشنز آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہیں جنہیں کالعدم قرار دیا جائے۔
اس درخواست سے قبل مختلف شہروں سے سول سوسائٹی کے 5 ارکان نے اپنے وکیل فیصل صدیقی کے ذریعے 9 مئی کے تشدد کے سلسلے میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کو غیر قانونی قرار دینے کی درخواست دائر کی تھی۔
اسی طرح 18 جون کو پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر وکیل اعتزاز احسن نے 9 مئی کے واقعات میں ملوث شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
اعتزاز احسن کی جانب سے وکیل سلمان اکرم راجا نے درخواست دائر کی جس میں شہریوں کےفوجی عدالتوں میں ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے اور وفاقی حکومت کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے کور کمانڈر فیصلہ پر ربر اسٹمپ کا کردار ادا کیا، سویلین کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 اور 59 آئین سے متصادم ہیں، آرمی ایکٹ قانون کے سیکشن 2 اور 59 کو کالعدم قرار دیا جائے۔
خیال رہے کہ رواں سال 9 مئی کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو پیراملٹری فورس رینجرز کی مدد سے القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کیا جس کے بعد ملک بھر میں ہوئے پر تشدد احتجاج کے دوران املاک کی توڑ پھوڑ جلاؤ گھیراؤ دیکھنے میں آیا۔
احتجاج کے دوران مشتعل افراد نے فوجی تنصیبات، بشمول کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ اور پاکستان بھر میں ریاستی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔
اس واقعے کے بعد، فوج نے اس دن کو ملکی تاریخ کا ایک ’سیاہ باب‘ قرار دیا تھا اور توڑ پھوڑ میں ملوث تمام افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا عزم کیا تھا۔
بعد میں مزید سخت قدم اٹھاتے ہوئے حکومت نے سول اور فوجی تنصیبات پر حملے اور آتش زنی کرنے والوں کو پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ سمیت متعلقہ قوانین کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لانے کا فیصلہ کیا۔
اس فیصلے کی قومی سلامتی کمیٹی نے بھی توثیق کی تھی، جو کہ قومی سلامتی کے امور کے لیے ملک کا اعلیٰ ترین فورم برائے رابطہ کاری ہے۔
بعد ازاں 20 مئی کو آرمی چیف نے کہا کہ مئی کے سانحے میں ملوث منصوبہ سازوں، اکسانے والوں، حوصلہ افزائی کرنے والوں اور مجرموں کے خلاف مقدمے کا قانونی عمل آئین سے ماخوذ موجودہ اور قائم شدہ قانونی طریقہ کار کے مطابق پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت شروع ہو گیا ہے۔
اس کے بعد فوج اور حکومت نے شہدا کی قربانیوں کو یاد کرنے اور ان کے خاندانوں کو عزت دینے کے لیے 25 مئی کو ’یوم تکریم شہدا‘ منانے کا فیصلہ کیا۔
اس سلسلے میں ملک بھر میں قائم یادگار شہدا پر متعدد یادگاری تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔
خیال رہے کہ 26 مئی کو ایک نیوز کانفرنس میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا تھا کہ 9 مئی سے متعلق صرف 6 مقدمات میں 33 ملزمان کو فوجی حکام کے حوالے کیا گیا ہے۔
گزشتہ دنوں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا تھا کہ فوج کے قوانین کے تحت مقدمات بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تقاضوں کو پورا کرتے ہیں جو کہ منصفانہ ٹرائل کی بنیاد ہیں۔