اسلام آباد:(سچ خبریں)وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن نے پاکستان کلائمیٹ چینج کونسل (پی سی سی سی) کے پہلے اجلاس کے دوران بتایا ہے کہ غریب اور ترقی پذیر ممالک میں موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہونے والا ’نقصان اور خسارہ‘ رواں سال اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی سے متعلق کانفرنس کا مرکزی نکتہ ہوگا۔
2022 اقوام متحدہ کی 27 ویں موسمیاتی تبدیلی کانفرنس، جسے عام طور پر کانفرنس آف پارٹیز (سی او پی) کہا جاتا ہے 6 سے 18 نومبر تک مصر کے شہر شرم الشیخ میں منعقد ہوگی۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس سے خطاب کے دوران شیری رحمٰن نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں موسمیاتی فنانسنگ کے ایجنڈے سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سی او پی27 کو ایڈیپٹیشن فنڈ کی سہولت سے استفادہ کرنا چاہیے اور جن ممالک میں موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف اقدامات کی ضرورت ہے ان میں تیزی کے ساتھ میں فنڈز کا اجرا کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ترقی پذیر ممالک میں بڑے خسارے کو پورا کرنے کے لیے سہل، طویل مدتی موسمیاتی فنانسنگ فنڈز کی ضرورت ہے جب کہ سنگین صورتحال سے نمٹنے کے لیے فنڈز کے اجرا کی سست رفتار اس کی افادیت کو کم کردیتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ایسے فنڈز کی ضرورت ہے جن تک آسانی کے ساتھ رسائی ہوسکے اور فنڈز کی منتقلی کی پیشگی منصوبہ بندی کی جاسکے، ہمیں فنڈز کے اجزا میں تاخیر کو کم کرنا چاہیے کیونکہ فنڈز کے اجرا میں تاخیر کے باعث متاثرین کی ضروریات تبدیل ہوجاتی ہیں۔
اس دوران وفاقی وزیر نے ان مالی اور تکنیکی وسائل کی کمی پر بھی روشنی ڈالی جن کا پاکستان کو سیلاب سے نمٹنے کی کوششوں میں سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے سیلاب سے متاثرہ گھرانوں کو مالی امداد فراہم کرنے سمیت دیگر اقدامات کے لیے موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے مختص فنڈز سمیت اپنے تمام موجودہ بجٹ کا از سر نو جائزہ لیا جب کہ ہلاکتوں، نقصانات اور خسارے میں تاحال اضافہ جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کلائمیٹ ریزیلینس فنڈز اور کلائمیٹ فنانس کے تحت قومی ایکشن پلانز اور بحالی کے اقدامات کے لیے ان فنڈز کے حصول کے لیے 2 سے 3 سال کی طویل کارروائی سے گزرنا ہوگا۔
وزیر نے کہا کہ ان کی وزارت عالمی کانفرنس میں نقصانات اور خسارے کا ایجنڈا اٹھائے گی، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ٹھوس حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت ہے، نقصان اور خسارے کو کلائمیٹ فنانس ایجنڈے پر باضابطہ طور پر رکھا جانا چاہیے اور اس پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ امیر ممالک نے نہ صرف اپنی ذمےداریوں اور وعدوں کو پورا نہیں کیا بلکہ کاربن سے بھرپور طرز زندگی اور سرمایہ کاری میں اضافہ کیا جس سے کاربن کے اخراج میں اضافہ ہا۔
انہوں نے کہا کہ ہم اقوام متحدہ کی کلائمیٹ چینج کانفرنس میں میں ’نقصان اور خسارے‘ کے نکتہ نظر کی وکالت کریں گے، گلوبل ساؤتھ کو گلوبل نورتھ کے امیر ممالک کے اقدامات کا خمیازہ نہیں بھگتنا چاہیے۔