اسلام آباد:(سچ خبریں) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ حکومت کو گزشتہ ایک برس کے دوران انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اتحادیوں نےہمت نہیں ہاری اور ہمیں اپنی معیشت ٹھیک کرنے کیلئے انقلابی سرجیکل آپریشن کرنا ہوگا۔
اسلام آباد میں وزیراعظم شہباز شریف نے اراکین پارلیمنٹ کو دیے گئے عشائیے کے بعد خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے مخلوط حکومت کے اس سفر کا آغاز 11 اپریل 2022 کو کیا تھا اور تمام سیاسی جماعتوں کے زعما نے مجھے اعتماد کا ووٹ دیا اور اس اعتماد کا شکریہ ادا کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جو ناقابل بیان ہیں، ہمیں اندازہ تھا کہ صورت حال خاصی خراب ہوچکی ہے، ہمیں علم تھا کہ عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاملہ بہت دور تلک چلا گیا اور بالکل ٹوٹنے والا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اندازہ تھا کہ کئی سال سے دن رات چور ڈاکو کا منترا کرکے پاکستان میں نفرت، حقارت اور زہر گھولا گیا، اس کے نتائج بے پناہ تباہ کن تھے، ہیں اور کافی عرصے تک رہیں گے لیکن خدا کرے ہماری حکمت عملی سے یہ حالات بہتر ہو جائیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ ایک عمارت بنانے کے لیے کئی سال لگتے ہیں اور اس کو زمین بوس کرنے میں ایک منٹ لگتا ہے لیکن مخلوط حکومت اور زعما نے ہمت نہیں ہاری اور ہم چل پڑے، سیلاب کی تباہ کاری آئی، تاریخ کا سب سے بدتر مہنگائی کا طوفان نے ہمیں آدبوچا اور مہنگائی کے بوجھ سے غریب آدمی کی حالت غیر ہوگئی۔
چیئرمین پی ٹی آئی پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیاسی افراتفری جو باقاعدہ ایک شیطانی اور سازشی ذہن کے ساتھ پیدا کی گئی، آج لانگ مارچ ہو رہا ہے، آج دھرنا ہو رہا ہے، آج فلاں جگہ گھیراؤ ہو رہا ہے، فلاں کو چور ڈاکو کہا جا رہا ہے اور گالی دی جا رہی ہے، دنیا میں کوئی بھی ملک یا ریاست میں سیاسی استحکام آنے تک ترقی کا نہیں سوچا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کا بڑا چیلنج تھا اور اس نے میری نیندیں حرام کردی تھیں، اسحٰق ڈار اس پر بڑے مطمئن تھے اور مجھے کہہ رہے تھے آئی ایم ایف کا پروگرام نہ بھی ہوا تو ہم ڈیفالٹ نہیں کریں گے لیکن ڈیفالٹ نہ بھی ہوتا اس کے باوجود ہماری معیشت کی حالت غیر ہوجانی تھی، ڈالر کہیں ہوتا اور روپیہ کہیں ہوتا، درآمدات پر مزید دباؤ آنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پیرس میں ایک موقع ملا اور آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر سے ملاقات ہوئی تو شروع میں سرد مہری رہی اور انہوں نے تقریباً جواب دے دیا کہ وقت گزر گیا ہے، 30 جون کے بعد کوئی پروگرام نہیں تھا بہرحال میں نے اور میرے ساتھیوں نے جو ہوسکتا تھا کوشش کی۔
آئی ایم ایف کی سربراہ سے ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر میں یہ کہوں تو غلط نہیں ہوگا کہ ان کی خوشامد کی، ان کو بطور عالمی بینک کی نائب صدر جانتا تھا اور ڈیڑھ گھنٹے کی ملاقات کے بعد طے ہوا کہ ٹیمیں بیٹھیں گی تو اسحٰق ڈار نے تحفظات کا اظہار کیا لیکن میں نے کہا کہ بیٹھیں گے، یہ بعد میں پھر بدل جائیں گے اور اجتماعی کوششوں سے آئی ایم ایف کا معاہدہ ہوا۔
وزیراعظم نے بتایا کہ تمام زعما کے سر پر اللہ نے ہما بٹھائی کہ آپ کے دور میں وہ خطرہ ٹل گیا جو عمران خان کے دورہ میں ڈیفالٹ کا تھا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان اور اس کی حکومت نے خارجہ معاملات میں وہ تباہی کی جو بیان نہیں کرسکتا، دوست اور برادر ممالک کے زعما نے خود بتایا کہ ہمارے ساتھ یہ ہوا اور ہمارے ساتھ یہ باتیں کی گئیں، یہ باتیں اب راز نہیں کہ وہ کون تھا جس نے دوست ملک کو کہا کہ آپ کے بغیر کشمیر کا معاملہ حل کریں گے اور دوسرے ملک سے کہا کہ آپ کی مدد کی ضرورت نہیں اور چین پر الزام تراشی کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیرخارجہ بلاول بھٹو اور ہم سب نے ان کو کیسے راضی کیا وہ خدا جانتا ہے، اب چین کے زعما آئے اور وہی گرم جوشی محسوس ہوئی جو پہلے ہوا کرتی تھی لیکن پچھلے 4 برسوں میں تعلقات سرد خانے میں چلے گئے تھے اور سرد مہری کا شکار تھے اور تاریخ میں تعلقات میں اتنی سرد مہری نہیں آئی ہوگی۔
وزیراعظم نے کہا کہ جس ملک نے آپ کے ملک میں 25 ارب ڈالر سے زیادہ سرمایہ کاری کی ہو، اس کے بعد ان کو جو پیسے واپس جانے تھے، اس میں بے پناہ تاخیر ہو اور ان کے بارے میں وزیراعظم ہاؤس کے اندر اور باہر جو الزام تراشیاں ہوتی تھیں وہ میں آپ کو بتا نہیں سکتا۔
انہوں نے کہا کہ جس ملک نے جنگوں میں، امن میں، اقوام متحدہ میں اور حساس معاملات میں پاکستان کا ساتھ دیا ہو، اس چین پر دن رات الزام کے نشتر چلا رہے ہوں تو اس سے بڑا ظلم یا زیادتی پاکستان کے ساتھ نہیں ہوسکتی اور اس کی مثال 75 سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیرخزانہ نے 4 ارب کا بڑی محنت سے انتظام کیا اور 2 ارب ڈالر سعودی عرب، ایک ارب ڈالر متحدہ عرب امارات اور ایک ارب ڈالر اسلامک ترقیاتی بینک نے دیا، تب جا کر پاکستان ڈیفالٹ سے بچا ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ پوری مخلوط حکومت کے وزرا نے ملک کے معاملات سلجھانے میں کلیدی کردار ادا کیا، اب ہمیں اس معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے انقلابی سرجیکل آپریشن کرنے ہوں گے، اگر بڑے لوگوں کے کاروبار کو کچھ نہ ہو اور غریب آدمی پر اور ٹیکس لگا دو تو یہ نہیں چلے گا۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں اپنے ملک کو ٹھیک کرنا ہے اور خوش حالی لانی ہے تو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہوگا، اس کے لیےسب سے پہلے کردار حکومت وقت، اشرافیہ اور صاحب حیثیت لوگوں کا ہے اور ان کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ چاہے بلوچستان ہے، چاہے کے پی، سندھ، پنجاب، گلگت بلتستان ہمیں ایک کنبےکی طرح شبانہ روز محنت کرنی ہوگی، انتخابات کے بعد جو حکومت آئے گی اس کے لیے مشکل مرحلہ ہوگا۔
وزیراعظم نے تمام اتحادی جماعتوں اور ان کے اراکین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہو معذرت چاہتا ہوں اور اس کے علاوہ اسپیکر قومی اسمبلی کو ایوان کی کارروائی احسن انداز میں چلانے پر خراج تحسین ادا کیا اور چیئرمین سینیٹ کا بھی شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ اتحادی حکومت کے 15 مہینوں میں ہمیں سبق بھی ہے اور سیکھنے کے لیے بھی بہت کچھ ہے اور نچوڑ یہ ہے کہ صبر، تحمل اور برداشت وہی ستون ہیں جو ایسے رشتوں کو جوڑ کر رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 15 ماہ ایسی جماعتوں کے ساتھ گزرے جن کے ساتھ ماضی میں تلخ تجربہ رہا اور دیگر معاملات تھے لیکن تمام زعما نے اپنی قومی ذمہ داری کو پہچانا اور اونچ نیچ برداشت کی اور ساتھ چلے اور میں ان سب کا شکرگزار ہوں۔