اسلام آباد 🙁سچ خبریں) اسلام آباد پولیس نے وفاقی دارالحکومت میں کم عمر گھریلو ملازمہ رضوانہ پر وحشیانہ تشدد کی تحقیقات کے لیے 5 رکنی خصوصی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم(جے آئی ٹی) تشکیل دے دی ہے۔
سرگودھا سے تعلق رکھنے والی رضوانہ کو 24 جولائی کو تشویش ناک حالت میں لاہور جنرل ہسپتال منتقل کیا گیا تھا، اسلام آباد کے ایک سول جج کی اہلیہ نے مبینہ طور پر کمسن ملازمہ پر طلائی زیورات چوری کرنے کا الزام لگا کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
لڑکی کے میڈیکو لیگل سرٹیفکیٹ کے مطابق ان کے سر، پیشانی، بھنویں کے اوپر دائیں جانب زخم کے ساتھ ساتھ سوجے ہوئے اوپری ہونٹ، دائیں جانب اوپری ہونٹ کے نچلی طرف بھی زخم ہے، ناک سے خون بہہ رہا تھا، نچلی ٹانگ پر ایک سے زیادہ زخم تھے، دائیں بازو پر فریکچر تھا، بائیں اور دائیں پلکیں سوجی ہوئی تھیں، کھوپڑی کی دائیں جانب زخم، پیٹھ پر زخم، کمر پر متعدد زخم ہونے کے ساتھ ساتھ گلا گھونٹنے کی کوشش بھی کی گئی۔
اسلام آباد پولیس نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرنے کے بعد 26 جولائی کو مقدمے کی ایف آئی آر درج کی تھی، پولیس نے ابتدائی طور پر ایف آئی آر میں جسمانی تشدد کا ذکر کیے بغیر جج کی اہلیہ کے خلاف مجرمانہ دھمکیاں دینے اور غلط قید میں رکھنے کا مقدمہ درج کیا تھا، بعد ازاں ایف آئی آر میں قتل سمیت 8 مزید دفعات شامل کی گئیں۔
رواں ہفتے کے اوائل میں اسلام آباد کی ایک ضلعی اور سیشن عدالت نے ملزمہ کی 7 اگست تک ضمانت قبل از گرفتاری منظور کر لی تھی جس کی شناخت صومیہ عاصم کے نام سے کی گئی تھی۔
آج جاری ہونے والے ایک نوٹیفکیشن میں اسلام آباد پولیس نے کہا کہ ملازمہ رضوانہ پر تشدد کیس کی تحقیقات کے لیے ایک جے آئی ٹی تشکیل دی گئی ہے۔
تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی اسلام آباد کے ڈی آئی جی (آپریشنز) شہزاد احمد بخاری کریں گے جس میں محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے ایس ایس پی یاسر آفریدی، ایس ایس پی(انوسٹی گیشن) رخسار مہدی اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کا ایک ایک نمائندہ شامل ہے۔
نوٹیفکیشن میں مزید کہا گیا کہ تفتیش کے حکم کے علاوہ جے آئی ٹی کا کنوینر اسلام آباد پولیس کے کسی دوسرے رکن کو پیشہ ورانہ خطوط پر بہتر شواہد اکٹھے کرنے میں ٹیم کی مدد کے لیے منتخب کر سکتا ہے۔
دریں اثنا، آج سینیٹ کے اجلاس کے دوران حکومت نے واقعے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا اور ایوان سے بچوں پر تشدد سے متعلق قانون سازی پر بھی زور دیا۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن نے کہا کہ یہ مسئلہ چھوٹا نہیں ہے، سب جانتے ہیں کہ لڑکی سول جج کی طاقت کا نشانہ بنی، آج وہ آئی سی یو میں ہے اور اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب کوئی اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کر رہا ہے تو ایسے میں عدالتوں کا مشتبہ ملزم کو ریلیف دینا افسوس ناک ہے، کیا یہ انصاف ہے، رضوانہ کو انصاف کیوں نہیں مل رہا؟ عدالتیں اس کا نوٹس کیوں نہیں لے رہی ہیں۔
پیپلز پارٹی کی رہنما نے مزید کہا کہ یہ واقعہ انتہائی تشویش ناک ہے اور ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ یہ ہماری ناک کے نیچے کیسے پیش آیا۔
انہوں نے کہا کہ رضوانہ سول جج کے خاندان کی طاقت کا نشانہ بنی، جب ہر چیز پر ازخود نوٹس لیا جاتا ہے تو پھر جب کوئی اپنے گھر میں طاقت کا ناجائز استعمال کرتا ہے تو اپنے گھر میں پہلے کیوں نہیں دیکھا گیا، یہ کہاں کا انصاف ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر آپ کا سینیٹ کا سیکریٹریٹ کوئی ایسی حرکت کرتا تو آپ یقیناً نوٹس لیتے، اگر آپ نہ لیتے تو ہم آپ کے گلے پڑ چکے ہوتے تو عدلیہ اپنے گھر میں ہونے والے اس واقعے کا نوٹس کیوں نہیں لے رہی۔
شیری رحمٰن سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام میں کہا کہ رضوانہ تشدد کیس طاقت اور اثر و رسوخ کے ناجائز استعمال کی بدترین مثال ہے، جنہوں نے معاشرے میں قانون اور انصاف کو یقینی بنانا تھا وہ اپنے اختیار اور طاقت کو معصوم اور نہتے لوگوں کے خلاف استعمال کر رہے۔
انہوں نے کہا کہ افسوس ہے کہ اعلی عدلیہ نے اس معاملے کا ابھی تک نوٹس نہیں لیا اور سول جج اور ان کا خاندان ظلم کرنے کے بعد انصاف کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں
انہوں نے مطالبہ کیا کہ اعلیٰ عدالت رضوانہ تشدد کیس کا ازخود نوٹس لے اور معصوم بچی کے ساتھ انصاف کرے۔
شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ تشدد کا نشانہ بننی والی معصوم رضوانہ کی والدہ کے بیانات انتہائی سنجیدہ نوعیت ہیں، ان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جس طرح رضوانہ پر ظلم اور تشدد کیا گیا ہے وہ انتہائی تشویش ناک ہے اور اس کو انصاف دیا جائے۔
ادھر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ بچوں کے تحفظ کے لیے حکومتی سطح پر کچھ قوانین بنائے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں ہمیں اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کی ضرورت ہے اور حکومت جلد ہی سینیٹ میں بل کے کچھ مسودے پیش کرے گی۔
کم سن گھریلو ملازمہ پر تشدد کا مقدمہ ہمک پولیس اسٹیشن میں لڑکی کے والد کی شکایت پر درج کیا گیا جو پیشے سے مزدور ہے، ایف آئی آر کے مطابق اس نے اپنی بیٹی کو 10 ہزار روپے ماہوار پر ایک جاننے والے کے ذریعے زرتاج ہاؤسنگ سوسائٹی میں جج کے گھر کام کے لیے بھیجا تھا۔
23 جولائی کو وہ اپنی بیوی اور بہنوئی کے ساتھ اپنی بیٹی سے ملنے جج کے گھر آیا اور اسے ایک کمرے میں زخمی اور روتے ہوئے پایا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ہم نے اس کے سر پر زخموں کے علاوہ چہرے، دونوں بازوؤں اور ٹانگوں پر بھی زخم دیکھے، اس کا دانت بھی ٹوٹا ہوا تھا اور ہونٹوں اور آنکھوں دونوں پر سوجن تھی۔
انہوں نے کہا کہ لڑکی کی پسلیاں بھی ٹوٹی ہوئی پائی گئیں اور اس کی کمر پر بھی چوٹیں تھیں، اس کی گردن پر گلا گھونٹنے کے نشانات بھی پائے گئے۔
جب ان سے اس حوالے سے پوچھا گیا تو سول جج گھر والوں نے بتایا کہ جج کی بیوی روزانہ اسے ڈنڈوں اور چمچوں سے مارتی تھی اور رات کا کھانا نہیں دیتی تھی۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ لڑکی کے گھر آنے کے بعد اسے ایک کمرے میں نظر بند کر دیا گیا تھا، بعد ازاں اہل خانہ اسے سرگودھا ڈی ایچ کیو ہسپتال لے گئے جہاں لڑکی کی حالت بگڑنے پر اسے لاہور منتقل کر دیا گیا تھا۔