اسلام آباد: (سچ خبریں) سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فنڈز اور سیکیورٹی کا مسئلہ پہلے الیکشن کمیشن نے بتایا تھا، آج تو الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار پر سوال اٹھا دیا ہے، نظر ثانی درخواست پر نوٹس جاری کر دیتے ہیں۔
انہوں نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کو دلائل کے لیے کتنا وقت چاہیے، الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ مجھے دلائل کے لیے 3 سے 4 گھنٹے چاہیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم تمام فریقین کو سنیں گے، یہ ایک نظرثانی درخواست ہے اس میں تیاری کے لیے کتنا وقت چاہیے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل علی ظفر نے کہا کہ اس معاملے میں 2 احکامات ہیں، اس وقت ملک کی آدھی آبادی نمائندگی کے بغیر ہے، عدالت اس وقت اپنے احکامات پر عمل کے لیے حکم جاری کرے۔
انہوں نے مزید کہا کہ نظرثانی کا دائرہ محدود ہوتا ہے، نظرثانی درخواست میں نئے نکات نہیں اٹھائے جا سکتے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ درخواست قابل سماعت ہونے پر الیکشن کمیشن کا مؤقف سننا چاہتے ہیں، صوبائی حکومتوں کو بھی نوٹس جاری کر کے سنیں گے، دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی نوٹس جاری کریں گے، عدالتی حکم پر عملدرآمد کرایا جائے، عدالت نے جو حکم دیا ہے وہ حتمی ہے۔
دریں اثنا عدالت نے وفاق، پنچاب، خیبرپختونخوا اور سیاسی جماعتوں سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کردیے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہمارے پاس کل اہم کیس کی سماعت ہے، کیوں نہ یہ سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کر دیں، جلدی تب کرتے جب معلوم ہوتا کہ الیکشن کا وقت آگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ادارے سیریس تھریٹس کے اندر ہیں، میرا مشورہ ہے پرامن ماحول کے لیے کردار ادا کریں، آج دیکھ لیں، حکومت بے بس ہے، لوگ گیٹ پھلانگ رہے ہیں، جس انداز میں سیاسی قوتیں کام کر رہی ہیں یہ درست نہیں، لوگ جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔
انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ عدالتی دائرہ اختیار کا نکتہ بھی الیکشن کمیشن نے نہیں اٹھایا تھا، وفاقی حکومت یہ نکتہ اٹھا سکتی تھی لیکن انہوں نے نظرثانی دائر ہی نہیں کی۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ اب مذاکرات ختم کر کے بات آئین کی عملداری پر آگئی ہے، ہماری مذاکراتی ٹیم کے دو فریق گرفتار ہوچکے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں ہی وہ پہلا شخص تھا جس نے مذاکرات کی بات کی، مذاکرات بالکل ہونے چاہئیں، دونوں جانب سلجھے ہوئے لوگ ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ مذاکرات دوبارہ کیوں شروع نہیں کرا سکتے؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ حکومت نے سنجیدگی سے مذاکرات میں حصہ لیا تھا، مذاکرات تحریک انصاف نے ختم کیے تھے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئین سیاسی حقوق کا ضامن ہے، ہمیں سیاسی معاملات میں نہیں جانا، نہ ہی کچھ سننا چاہتے ہیں، امید کرتے ہیں مذاکرات دوبارہ شروع ہوں گے اور کوئی حل نکل آئے گا، اٹارنی جنرل صاحب آپ کو آگے آنا ہوگا، اپنے مؤکل کو بتادیں، ہم دونوں فریقین سے امید رکھتے ہیں کہ ماحول بہتر ہوگا۔
دوران سماعت پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل علی ظفر نے کہا کہ پچھلے ہفتے نام کی جمہوری حکومت نے سابق وزیراعظم کو احاطہ عدالت سے گرفتار کیا، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ یہ بھی دیکھیں کہ اس کے بعد کیا کیا ہوا ہے، گرفتاری کے معاملے کو عدالت نے درست قرار دیا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مذاکرات دوبارہ شروع کریں، جو بیانیہ دونوں جانب سے بنایا جا رہا ہے اس کو حل کریں، علی ظفر درست کہہ رہے ہیں کہ بال حکومت کے کورٹ میں ہے، حکومت مذاکرات کی دعوت دے تو علی ظفر بھی اپنی قیادت سے بات کریں۔
انہوں نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ ملک میں کاروبار کا پہیہ رک گیا ہے، موٹروے پر سفر کیا کچھ نظر نہیں آیا کیونکہ لوگوں کا کاروبار ختم ہوچکا ہے، سپریم کورٹ پاکستانی عوام کے حقوق کے دفاع کے لیے موجود ہے، بنیادی حقوق کے نفاذ کے لیے امن ہونا ضروری ہے۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ معیشت منجمد ہے، لوگ باہر نہیں نکل رہے چپ ہو کر بیٹھ گئے ہیں، باہر شدید پرتشدد ماحول ہے، اگر تفریق زدہ معاشرہ ہوگا تو انتخابات کے نتائج کون قبول کرے گا؟ میرا پیغام ہے کہ دونوں جانب سے اخلاقیات کے اعلیٰ معیار کو قائم کیا جائے۔
انہوں نے ریمارکس کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آپ کوکیا لگتا ہے عدالت بھول گئی ہے کہ 90 دن کی میعاد آئین کی بنیاد ہے؟ ہمیں سیاست کے بارے میں نہیں معلوم اور نہ جاننا چاہتے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ آئین میں موجود بنیادی حقوق پر کیسے عمل ہوگا، اس وقت بال اٹارنی جنرل اپ کی کورٹ میں ہے، علی ظفر یہاں کے بارے میں اپنی قیادت کو آگاہ کریں گے۔
چیف جسٹس نے واضح کیا کہ اس نظر ثانی کیس میں جلدی سے درخواست پر سماعت نہیں چاہتے، ہم یہاں عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے بیٹھے ہیں، ان کےحقوق کا تحفظ ہوگا تو لوگ خوشحال ہوں گے، میں نے کل دیکھا کہ موٹروے خالی پڑے ہیں، معیشت کی حالت خراب ہورہی ہے، اس صورتحال میں لوگوں کا نقصان ہورہا ہے۔
اس دوران وکیل علی ظفر نے کہا کہ میں اس کیس میں جو دلائل دوں گا وہ سیاسی نہیں ہوں گے۔
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ اپنی قیادت کو بتائیں کہ پولرائزڈ سوسائٹی میں کیسے انتخابات ہوں گے، آپ سب کو ہائی مورل گراؤنڈ پیدا کرنا ہوگا، 90 دن میں انتخابات بنیادی معاملہ ہے، آپ کو علم ہے نا؟
اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ ممکن ہو تو پیر کے روز سماعت رکھ لیں، تاہم عدالت نے کیس کی مزید سماعت آئندہ منگل (23 مئی) تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ رواں ماہ 4 مئی کو الیکشن کمیشن نے پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کے انعقاد کو ناممکن قرار دیتے ہوئے حکم پر نظرثانی کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی تھی۔
درخواست میں عدالت عظمیٰ سے 4 اپریل کے فیصلے پر نظرثانی کی استدعا کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ انتخابات کے انعقاد سے متعلق آرٹیکلز کو ایک ساتھ پڑھا جائے، سپریم کورٹ کے پاس انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار نہیں، عدالت نے تاریخ دے کر اختیارات سے تجاویز کیا۔
الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ عدالت قانون کی تشریح کر سکتی ہے، قانون کو دوبارہ لکھ نہیں سکتی، بااختیار الیکشن کمیشن وقت کی ضرورت ہے۔
سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں الیکشن کمیشن نے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کا انعقاد ناممکن قرار دیتے ہوئے نئی تاریخ کا مطالبہ بھی کردیا۔
یاد رہے کہ 4 اپریل کو عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کا 22 مارچ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے صوبہ پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کرانے کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں وفاقی حکومت کو فنڈز کی مد میں 10 اپریل تک 21 ارب جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن 11 اپریل کو فنڈ کی وصولی کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائے، فنڈز نہ جمع کروانے کی صورت میں عدالت مناسب حکم جاری کرے گی.
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت، اپنے آئینی فرائض کی ادائیگی میں، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کو ضرورت کے مطابق امداد اور تعاون فراہم کرنے کی پابند ہے۔
عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی تھی کہ وہ پہلے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے فنڈز استعمال کرے اور مزید کہا کہ اگر بعد میں خیبر پختونخوا میں انتخابات کے لیے فنڈز میں کمی ہوئی تو عدالت مناسب فیصلہ جاری کرے گی۔
عدالت نے پنجاب کی نگراں حکومت، انسپکٹر جنرل اور چیف سیکریٹری (سیکیورٹی) کو 10 اپریل تک انتخابی ادارے کو سیکیورٹی پلان فراہم کرنے کی بھی ہدایت کی تھی۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ حکومت پنجاب اور اس کے تمام عہدیداروں کو بھی اس صورت میں آئینی اور قانونی فرائض اور ذمہ داریوں کی ادائیگی کے سلسلے میں عام انتخابات کے انعقاد کے لیے کمیشن کو فعال طور پر ہر طرح کی مدد اور تعاون فراہم کرنا چاہیے۔
پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے دائر نظرثانی اپیل پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ امید کرتے ہیں مذاکرات دوبارہ شروع ہوں گے اور کوئی حل نکل آئے گا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے دائر مذکورہ درخواست پر سماعت سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق پنجاب میں (14 مئی کو) انتخابات منعقد کرانےکی ڈیڈلائن گزر جانے کے ایک روز بعد ہوئی۔
دوسری جانب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی جانب سے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی مبینہ حمایت کرنے پر عدلیہ کے خلاف سپریم کورٹ کے باہر آج احتجاج ہو رہا ہے۔