اسلام آباد (سچ خبریں) پاکستانی سکیورٹی اور انٹیلی جنس وفد کے حالیہ دورہ امریکہ نے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان عدم اعتماد کی سطح کو کم کرنے میں مدد کی بلکہ واشنگٹن کے دوستانہ تعلقات کے بہانے نے اسلام آباد کے احتجاج کو جنم دیا جس نے پاکستان کو ایک نئے مؤقف اختیار کرنے پر آمادہ کیا۔
بدھ کو آئی آر این اے کے مطابق، قومی سلامتی کے مشیر اور پاکستان کی ملٹری انٹیلی جنس سروس کے سربراہ کا واشنگٹن کا دورہ اور کئی دنوں تک امریکی فریق کے ساتھ گہری مشاورت نے دونوں ممالک کے تعلقات میں دھندلی فضا کو صاف کرنے میں مدد نہیں کی بلکہ بائیڈن حکومت کی جانب سے پاکستان کو نظر انداز کرنے کا مسئلہ بھی اٹھایا گیا۔
واشنگٹن کے دورے کے دوران، پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے اپنے امریکی ہم منصب کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیے ایک معاہدے کی بات کی، لیکن بائیڈن حکومت نے اسلام آباد کو نظر انداز کیا اور بائیڈن نے وزیر اعظم کو ایک فون کال کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔ عمران خان کے قومی سلامتی کے مشیر نے امریکی حکومت کو خبردار کیا کہ اگر بائیڈن حکومت اسلام آباد کو نظر انداز کرتی رہی تو ہمارے پاس بھی آپشن موجود ہیں۔
فنانشل ٹائمز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے امریکی حکومت کی جانب سے دونوں ممالک کے تعلقات کے حوالے سے لاتعلقی یا اسلام آباد کے ردعمل کے حوالے سے پاکستان کے اختیارات کی نوعیت کا ذکر نہیں کیا، تاہم انہوں نےکہا کہ بائیڈن کا پاکستانی وزیراعظم سے رابطہ نہ کرنا شائد کچھ دیگر مسائل کی وجہ سے لیکن لوگ اس قسم کی منطق پر یقین نہیں رکھتے اور اگر واشنگٹن اسلام آباد کے ساتھ تعلقات کو سیکورٹی کی ضروریات تک محدود رکھتا ہے تو پاکستان دیگر آپشنز آزمائے گا۔
دریں اثناء امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کل کہا کہ امریکا، افغانستان میں امن لانے میں پاکستان کے اہم کردار کو تسلیم کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اسلام آباد اپنا کردار جاری رکھے۔فنانشل ٹائمزنے لکھا ہے کہ پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر پاکستان کے بارے میں امریکی سرد مہری کے بارے میں شکایت کر رہے ہیں جبکہ واشنگٹن شدت سے طالبان کو کابل میں اقتدار پر قبضہ کرنے سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔
عمران حکومت کے قومی سلامتی کے مشیر کا دورہ واشنگٹن اور اس میں نئے امریکی قومی سلامتی کے مشیر کے ساتھ ملاقات دوسری ملاقات ہے۔ معید یوسف نے جون کے شروع میں جینیوا میں اپنے امریکی ہم منصب جیک سلیوان سے ملاقات کی جس میں دوطرفہ تعاون ، علاقائی اور بین الاقوامی مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔