اسلام آباد(سچ خبریں) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ میں منعقدہ 9ویں ہارٹ آف ایشیا- استنبول پراسیس وزارتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہا ہے کہ ۔افغانستان کے ساتھ بامعنی تعلقات استوار کرنے کی پاکستان کی خواہش کا عملی ثبوت ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغان امن عمل کو آسان بنانے کے ساتھ ساتھ پاکستان افغانستان کو ہر ممکن مدد فراہم کر رہا ہے، پاکستان نے ان کی ترقی اور تعمیر نو کے لیے ایک ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے، ہم نے دوطرفہ اور ٹرانزٹ تجارت کو آسان بنانے کے لیے پانچ بارڈر کراسنگ پوائنٹس بھی کھولے ہیں۔
وزیر خارجہ نے تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ میں منعقدہ 9ویں ہارٹ آف ایشیا- استنبول پراسیس وزارتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے اقدامات افغانستان کے ساتھ بامعنی تعلقات استوار کرنے کی پاکستان کی خواہش کا عملی ثبوت ہیں۔
ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق شاہ محمود قریشی پاکستان کے وفد کی سربراہی کر رہے ہیں جس میں سیکریٹری خارجہ سہیل محمود، تاجکستان میں پاکستان کے سفیر عمران حیدر اور دفتر خارجہ کے دیگر عہدیدار بھی شامل ہیں۔
اپنے خطاب کے دوران شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ ہارٹ آف ایشیا استنبول عمل افغانستان میں امن، استحکام اور خوشحالی کے مشترکہ اہداف کو آگے بڑھانے کے سلسلے میں شریک ممالک کو اکٹھا کرنے کا ایک اہم پلیٹ فارم ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے افغانستان ایک اہم ہمسایہ اور ایک برادر ملک ہے جس کے ساتھ مضبوط تاریخی روابط ہیں، کوئی دوسری قوم افغانستان کے ساتھ اس طرح کے بدستور تعلقات رکھنے کا دعویٰ نہیں کرسکتی ہے اور کوئی بھی قوم پاکستان سے زیادہ افغانستان میں امن کی خواہش مند نہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان امن عمل فی الحال ایک اہم فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے، 40 سالوں سے تنازعات اور عدم استحکام کا سامنا کرنے کے بعد افغانستان کبھی بھی ان تنازعات کا رخ موڑنے کے اتنا قریب نہیں رہا۔
وزیر خارجہ نے ستمبر 2020 میں افغان رہنماؤں کے اجتماع اور اس سال کے اوائل میں جنوری میں دوحہ امن معاہدے کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اب تک ہونے والی پیشرفت نے واقعتاً افغان قیادت کے لیے ایک جامع، وسیع البنیاد اور جامع مذاکرات کے حامل سیاسی تصفیے کے حصول کا تاریخی موقع پیدا کیا ہے، ہم اس یقین کے ساتھ اس مرحلے پر پہنچے ہیں کہ افغانستان کے تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بڑے پیمانے پر افغان رہنماؤں تک رسائی کی کوششوں کے سلسلے میں پاکستان نے مستقل طور پر ان پر زور دیا ہے کہ وہ کسی مثبت نتیجے کو حاصل کرنے کے لیے بات چیت جاری رکھیں، ہمارا انہیں پیغام ہے کہ اس عمل کو ٹھوس اور نتیجہ خیز مذاکرات کے ذریعے آگے بڑھایا جائے۔
شاہ محمود قریشی نے امن عمل کو درپیش مشکل مشکل چیلنجز کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے افغانستان کے اندر اور باہر دونوں ہی نے انتشار پیدا کرنے والوں کے کردار کے حوالے سے مستقل خبردار کیا ہے، ہم پورے افغانستان میں تشدد کے بڑھتے ہوئے سلسلے پر گہری تشویش میں مبتلا ہیں اور ہمیں خدشہ ہے کہ داعش اور القاعدہ کوئی بھی جگہ بنانے میں کامیابی ہوتے ہیں تو دہشت گردی کے خطرے میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
وزیر خارجہ نے عالمی برادری سے امن عمل کو آسان بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ جب دوحہ میں امن معاہدے پر دستخط ہوئے تو ہم نے اسے امید کا لمحہ قرار دیا تھا، ہماری اجتماعی کوشش ہونی چاہیے کہ اس امید اور غیر معمولی موقع کو ضائع نہ کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے ہر کسی کو صبر، عزم اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا اور سمجھوتے کے جذبے کو آگے بڑھانا ناگزیر ہو گا۔
دریں اثنا شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ افغانستان کے بارے میں پاکستان کے دیرینہ مؤقف کو عالمی برادری کی جانب سے تسلیم کیا جانا ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔
کانفرنس کے آغاز سے قبل گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پوری دنیا پاکستان کے مؤقف کو جانتی ہے اور افغانستان میں امن و استحکام کے لیے پاکستان کی قربانیاں اور کوششیں پوشیدہ نہیں ہیں۔
افغان امن عمل کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے قریشی نے کہا کہ ہر ایک ایک بات پر متفق ہے کہ امن کے بغیر آگے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ کئی دہائیوں سے جاری تنازع کا فوجی حل نہیں ملا اور پاکستان برسوں سے جو کچھ کہہ رہا ہے اسے دنیا تسلیم کررہی ہے جو ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔
کانفرنس سے وابستہ توقعات کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کی توجہ مستقبل اور اس خطے پر مرکوز ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ اگر خطے میں امن و استحکام ہوتا ہے تو علاقائی روابط کی ہماری خواہش کو تقویت ملے گی جبکہ اس سے پاکستان اور خطے کو فائدہ پہنچے گا۔