اسلام آباد: (سچ خبریں)وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناللہ نے کہا ہے کہ سابق ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو آفتاب سلطان کو چیئرمین قومی احتساب بیورو (نیب) تعینات کردیا گیا ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے نیب کے نئے چیئرمین کے تقرر کی منظوری دے دی ہے، امید ہے کہ آفتاب سلطان اپنی صلاحیتوں اور تجربات سے نیب جیسے ادارے کو غیرجانبدار اور صحیح معنوں میں احتساب کرنے والا ادارہ بنانے میں کامیاب ہوں گے۔
رانا ثنا اللہ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے جو بات کی تھی وہ یہ امکان ظاہر کیا تھا کہ تحریک انصاف کی صفوں میں ایسے لوگ جن کا ضمیر زندہ ہے اور شعور رکھتے ہیں تو وہ چوہدری پرویز الہیٰ کے لیے وزیر اعلیٰ کے انتخابات میں ووٹ نہیں دیں گے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ چوہدری پرویز کو یہ (عمران خان) ہمشیہ پنجاب کا ڈاکو کہتا تھا تو اب اس ڈاکو کو کیسے ووٹ دینے کے لیے کہہ رہا ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ عمران خان یوں تو کوئی ڈھنگ کی بات نہیں کرتے ہمیشہ گھٹیا الفاظ کا استعمال کرتے ہیں لیکن اس بار حالیہ ضمنی انتخابات کے دوراں عمران خان نے الیکشن کمیشن کے چیئرمین کے بارے میں جو دھمکی آمیز لہجے میں انتہائی گرے ہوئے الفاظ استعمال کیے ہیں اس پر کابینہ نے اظہار افسوس کیا ہے۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ کابینہ کے اجلاس میں حالیہ ضمنی انتخابات کے دوران الیکشن کمیشن کے انتظامی اور امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے ادا کیے گئے مثالی کردار کو سراہا گیا ہے جس میں کسی بھی پارٹی کے امیدوار کو کوئی اعتراض نہیں ہوا اور نہ ہی کسی نے اس کے خلاف درخواست دی مگر عمران خان صرف ایک انوکھا لاڈلا ہے جو نہ جییت کر خوش ہے اور نہ ہار کر خوش ہے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ تحریک انصاف میرے خلاف سپریم کورٹ میں گئی ہے کہ میں نے یہ کہا ہے کہ ان کی پارٹی کے کچھ اراکین نہیں آئیں گے جو بات بنتی نہیں تھی مگر انہوں نے پھر بھی عدالت عظمیٰ میں ایک درخواست کے بعد دوسری درخواست جمع کروائی مگر عدالت نے ان کی درخواست کو اس قابل نہیں سمجھا کہ مجھے بلا کر مجھ سے پوچھا جاتا۔
انہوں نے کہا کہ اگر عدالت میں مجھے بلا کر پوچھا جاتا تو میں بتاتا کہ یہ وہ ٹولا اور نااہل لوگوں کا جتھا ہے جس کا کام جھوٹ بولنا اور الزام تراشی کرنا ہے مگر ان سے کوئی پوچھے کہ 2018 کے الیکشن کے بعد بنی گالا میں ’پٹے‘ پہنانے کا جو دور چلا تھا وہ پیسے کہاں سے خرچ کیے گئے تھے اور کس کا جہاز چلا تھا کیونکہ جس شخص کا جہاز چلا تھا وہ اب خود یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ بندے کم تھے جس کے بعد ہم نے جہاز بھی چلایا اور مال بھی چلا۔
رانا ثنا اللہ نے چئیرمین سینیٹ کے انتخاب سے متعلق یاد دلاتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ جب سینٹ انتخابات میں کھڑے تھے تو اس وقت ان کی تعداد 64 تھی جب ووٹ پڑے تو وہ 53 ہوئے تو کیا یہ عمران خان کو معلوم نہیں تھا کہ اس طرح ہوا ہے اور کچھ وقت پہلے اس نے فیصل نیازی کو پٹہ پہنایا تو کیا اس کو پتا نہیں تھا کہ وہ کس پارٹی کی ٹکٹ پر منتخب ہوا ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ عمران خان خود لوگوں کو خریدتا ہے اور ان کاموں میں ملوث ہے جس کے بعد یہ چور مچائے شور کا کام کرتا ہے۔