اسلام آباد:(سچ خبریں)وفاقی کابینہ نے نیب تیسرا ترمیمی بل 2022 منظور کرلیا، جس کے تحت 50 کروڑ روپے سے کم کی کرپشن نیب کے دائرہ اختیار سے باہر ہوگی جب کہ احتساب عدالت کے ججز کی تقرری سے متعلق صدر کا اختیار بھی ختم کردیا گیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت کی جانب سے نیب قانون میں متعدد ترامیم کی ہیں ، اس حوالے سے وفاقی کابینہ نے نیب تیسرا ترمیمی بل 2022 بھی منظور کرلیا ، نئی ترامیم کے نفاذ کے بعد صدر مملکت احتساب عدالت کے ججز تعینات نہیں کر سکیں گے کیوں کہ صدر مملکت سے ججز کی تعیناتی کا اختیار ختم کرکے وفاقی حکومت کو دے دیا گیا ہے۔
نیب آرڈیننس میں ترمیم کے بل کے مسودے سے معلوم ہوا ہے کہ پراسیکیوٹر جنرل نیب کی مدت ملازمت میں 3 سالہ توسیع کی جا سکے گی ، نیب قانون کے سیکشن 16 میں بھی ترمیم کر دی گئی ، کسی بھی ملزم کے خلاف اسی علاقے کی احتساب عدالت میں مقدمہ چلایا جا سکے گا جہاں جرم کا ارتکاب کیا گیا ہو ، ترامیم کی باقاعدہ منظوری کے بعد آصف علی زرداری ، ان کی بہن فریال تالپور، مراد علی شاہ اور درجنوں دیگر افسران کے کیسز سندھ منتقل ہو جائیں گے۔
اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے سیکشن 19 ای میں بھی ترمیم کی گئی ہے ، نیب کو ہائی کورٹ کی مدد سے نگرانی کی اجازت دینے کا اختیار واپس لے لیا گیا ہے ، ملزمان کے خلاف تحقیقات کے لیے کسی سرکاری ایجنسی سے مدد نہیں لی جا سکے گی جب کہ ملزم کو اس کے خلاف الزامات سے آگاہ کیا جائے گا تاکہ وہ عدالت میں اپنا دفاع کر سکیں۔ اسی طرح سیکشن 31 بی میں بھی ترمیم کی گئی ہے ، چیئرمین نیب فرد جرم عائد ہونے سے قبل احتساب عدالت میں دائر ریفرنس ختم کرنے کی تجویز کر سکیں گے جب کہ اب اگر کوئی مجرم کسی جرم کا مرتکب پایا جائے تو اس پر کوئی مالی جرمانہ بھی نہیں ہوگا ، اس سے پہلے کسی کو جتنی کرپشن کا مرتکب پایا جاتا تو کم از کم اتنا ہی جرمانہ ادا کرنا ضروری تھا۔
بتایا گیا ہے کہ وفاقی کابینہ کی جانب سے نیب قانون میں ترامیم کی منظوری کے بعد اب انہیں منظوری کے لیے صدر کے پاس بجھوایا جائے گا ، صدر کے دستخط نہ کرنے کی صورت میں اگلے ہفتے جوائنٹ سیشن بلایا جائے گا۔
نیب آرڈیننس میں ترمیم کے بل کے مسودے سے معلوم ہوا ہے کہ پراسیکیوٹر جنرل نیب کی مدت ملازمت میں 3 سالہ توسیع کی جا سکے گی ، نیب قانون کے سیکشن 16 میں بھی ترمیم کر دی گئی ، کسی بھی ملزم کے خلاف اسی علاقے کی احتساب عدالت میں مقدمہ چلایا جا سکے گا جہاں جرم کا ارتکاب کیا گیا ہو ، ترامیم کی باقاعدہ منظوری کے بعد آصف علی زرداری ، ان کی بہن فریال تالپور، مراد علی شاہ اور درجنوں دیگر افسران کے کیسز سندھ منتقل ہو جائیں گے۔
اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے سیکشن 19 ای میں بھی ترمیم کی گئی ہے ، نیب کو ہائی کورٹ کی مدد سے نگرانی کی اجازت دینے کا اختیار واپس لے لیا گیا ہے ، ملزمان کے خلاف تحقیقات کے لیے کسی سرکاری ایجنسی سے مدد نہیں لی جا سکے گی جب کہ ملزم کو اس کے خلاف الزامات سے آگاہ کیا جائے گا تاکہ وہ عدالت میں اپنا دفاع کر سکیں۔ اسی طرح سیکشن 31 بی میں بھی ترمیم کی گئی ہے ، چیئرمین نیب فرد جرم عائد ہونے سے قبل احتساب عدالت میں دائر ریفرنس ختم کرنے کی تجویز کر سکیں گے جب کہ اب اگر کوئی مجرم کسی جرم کا مرتکب پایا جائے تو اس پر کوئی مالی جرمانہ بھی نہیں ہوگا ، اس سے پہلے کسی کو جتنی کرپشن کا مرتکب پایا جاتا تو کم از کم اتنا ہی جرمانہ ادا کرنا ضروری تھا۔
بتایا گیا ہے کہ وفاقی کابینہ کی جانب سے نیب قانون میں ترامیم کی منظوری کے بعد اب انہیں منظوری کے لیے صدر کے پاس بجھوایا جائے گا ، صدر کے دستخط نہ کرنے کی صورت میں اگلے ہفتے جوائنٹ سیشن بلایا جائے گا۔
Short Link
Copied