کراچی: (سچ خبریں) سندھ ہائیکورٹ نے قرار دیا ہے کہ میئر کراچی کے انتخاب کے نتائج جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن کی درخواست پر ہوئے فیصلے سے مشروط ہوں گے۔
گزشتہ روز ہوئی سندھ ہائیکورٹ میں سماعت کے آج جاری کردہ تحریری حکم نامے میں عدالت نے قرار دیا کہ بلدیاتی ترمیمی ایکٹ کے خلاف جماعت اسلامی کی درخواست منظور ہوئی تو براہ راست میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب کالعدم قرار دیا جائے گا۔
عدالت نے کہا کہ درخواست منظور ہونے کی صورت میں میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب پرانے قانون کے تحت دوبارہ ہوگا۔
میئر کے براہ راست انتخاب سے متعلق قانون سازی کے خلاف حافظ نعیم کی درخواست پر تحریری حکم نامہ جاری کیا گیا۔
جسٹس یوسف سعید کی سربراہی میں عدالت عالیہ کے دو رکنی بینچ نے 4 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا۔
حکم نامے میں قرار دیا گیا کہ میئر اور ڈپٹی میئر کے الیکشن کا شیڈول جاری ہونے کے بعد الیکشن ملتوی نہیں کیا جاسکتا، میئر کا الیکشن ملتوی کرنے سے متعلق جماعت اسلامی کی درخواست مسترد کی جاتی ہے۔
سندھ ہائیکورٹ نے بلدیاتی ترمیمی ایکٹ 2023 کے خلاف فریقین سے دلائل طلب کرلیے۔
دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا تھا کہ اسمبلی کو قانون سازی کا پورا اختیار حاصل ہے، براہ راست میئر کے انتخاب سے متعلق قانون سندھ اسمبلی نے اتفاق رائے سے منظور کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ لوکل گورنمنٹ ترمیمی ایکٹ 2023 کے حق میں جماعت اسلامی کے رکن صوبائی اسمبلی نے بھی ووٹ دیا تھا اور یہ ایکٹ 12 مئی کو نوٹیفائی ہوچکا ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی نے میئر کے الیکشن سے محض 7 روز قبل ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی، درخواست دائر کرنے کا مقصد میئر کے الیکشن میں رخنہ ڈالنے کے مترادف ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ صوبائی حکومت نے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 میں متفقہ طور پر ترمیم کی تھی جس کے بعد اکثریتی ووٹوں سے منتخب کسی بھی شخص کے میئر، ڈپٹی میئر، چیئرمین یا وائس چیئرمین کی راہ ہموار ہوگئی تھی۔
سندھ لوکل گورنمنٹ (ترمیمی) بل 2023 میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص میئر، ڈپٹی میئر، چیئرمین اور وائس چیئرمین کے عہدے کے لیے کھڑا ہو سکتا ہے، لیکن عہدہ سنبھالنے کے چھ ماہ کے اندر اسے متعلقہ کونسل سے بطور رکن منتخب ہونا ہوگا۔
جس کے خلاف جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے 7 جون کو سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جس میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ آئین میں ترمیم کو غیر قانونی، قانونی اختیار اور قانونی اثر کے بغیر قرار دیا جائے۔
درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ زیر بحث ترمیم اس وجہ سے غیر قانونی ہے کہ نمائندہ جمہوریت ان افراد کو ایگزیکٹو اتھارٹی دینے پر مبنی ہے جو منتخب نمائندے ہوں۔
انہوں نے زور دے کر کہا تھا کہ مذکورہ ترمیم کو 31 دسمبر 2021 سے نافذ کیا گیا تھا جس کے تحت ایک غیر منتخب شخص کو چیئرمین یا میئر کے عہدے پر کام کرنے کی اجازت دے کر ماضی اور بند انتخابی عمل کی خلاف ورزی کی گئی تھی۔
وکیل نے کہا تھا کہ اسی سے درخواست گزار کے اس حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے کہ اس کے ساتھ قانون کے مطابق نمٹا جائے یعنی انتخابی عمل کے انعقاد کے وقت جو قانون نافذ تھا۔