سچ خبریں: کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر نے غزہ میں اسرائیل کے جرائم کے خلاف اسلامی جمہوریہ ایران کے فیصلہ کن مؤقف پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ صیہونیوں کے خلاف اقتصادی پابندیاں اور اس حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے سے ایک آزاد فلسطینی ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔
غزہ کی موجودہ صورتحال اور عالمی برادری بالخصوص عرب اور اسلامی حکومتوں کے ردعمل کے بارے میں پاکستانی اخبار ایکسپریس ٹریبیون میں شائع ہونے والے ایک تجزیے میں کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر مونس احمر نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے نتائج کا جائزہ لیا۔
یہ بھی پڑھیں: ترکی کا اسرائیل سے تعلقات منقطع کرنے کے بارے میں اہم بیان
انہوں نے کہا کہ واحد ملک جس نے غزہ جنگ میں اسرائیل کے خلاف مضبوط موقف اختیار کیا ہے وہ ایران ہے،اسلامی انقلاب سے پہلے کی حکومت کے برعکس، جس کے اسرائیل کے ساتھ وسیع تعلقات تھے، اس ملک میں اسلامی حکومت کے قیام کے بعد اس نے صیہونی حکومت سے اپنے تعلقات ختم کر لیے اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی تحریک کی حمایت کی۔
کراچی یونیورسٹی کے بین الاقوامی تعلقات کے اس پروفیسر نے مزید کہا کہ اسرائیل اور امریکہ ایران پر صیہونی ریاست کے دو اہم دشمن حماس اور حزب اللہ کی حمایت کا الزام لگاتا ہے اور تہران کے ایٹمی پروگرام کو تل ابیب اور واشنگٹن کے مفادات کے لیے نقصان دہ سمجھتا ہے، اس کے باوجود غزہ کی حمایت میں ایران کا موقف مضبوط رہا۔
انہوں نے یہ سوال اٹھایا کہ اگر عرب اسلامی ممالک اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر لیں تو کیا اس سے فلسطین کاز کو مدد ملے گی؟ کیا عرب اسلامی دنیا میں عملی طور پر آزاد ریاست فلسطین کی حمایت کا سیاسی عزم موجود ہے؟ عرب مسلم ممالک میں اسرائیل اور اس کے اصل حامی امریکہ کے خلاف عملی اقدامات کرنے کا عزم کیوں نہیں ہے؟
مونس احمر نے کہا کہ مغربی دنیا اور صیہونی 1973 میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد عالم اسلام کی طرف سے اسرائیل کے خلاف تیل کی مہلک پابندی کو نہیں بھولے ہیں اور وہ تیل کی پابندی کی وجہ سے سخت سردیوں کو بھی نہ بھولے ہیں اور نہ ہی معاف کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک مسلمانوں کے قتل عام میں اسرائیل کے ساتھی بن گئے ہیں۔
انہوں نے تاکید کی کہ اگر تیسری دنیا کے ممالک اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر لیں تو ہم صیہونی حکومت کو غیر قانونی قرار دینے اور اسے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر متفق ہونے پر مجبور کرنے کی توقع کر سکتے ہیں جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو گا۔
مزید پڑھیں: مشہور روسی مفکر کا عالم اسلام کے نام پیغام
فلسطینی مزاحمت کاروں نے غزہ اور مقبوضہ علاقوں کے دیگر علاقوں کے عوام کے خلاف صیہونی حکومت کے سات دہائیوں سے زائد عرصے سے جاری قبضے اور جارحیت کے جواب میں 7 اکتوبر کو اس حکومت کے خلاف طوفان الاقصیٰ آپریشن شروع کیا جس کے جواب میں ہمیشہ کی طرح صیہونی حکومت نے مزاحمتی عام شہریوں کے قتل عام اور رہائشی علاقوں پر بمباری کے ذریعے دیا، تاہم آخر کار اس حکومت نے اسیروں کی رہائی کے آپریشن میں ناکامی کو قبول کیا اور مزاحمت کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔