جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس امجد رفیق نے آج کا فیصلہ جاری کیا، جس کی نقل ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کے پاس ہے، اس فیصلے میں عدالت نے کہا کہ ایسی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے جو درخواست گزار کے فورتھ شیڈول میں اندراج کا جواز پیش کر سکے۔
مزید کہا گیا کہ عام تجربہ ہے کہ ایسی پابندیاں لگنے کے بعد انسان اپنی زندگی باعزت طریقے سے نہیں گزار پاتا حتٰی کہ اسے طبی اور تعلیمی اخراجات کے لیے بھی وفاقی حکومت منظوری لینی پڑتی ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ عدالت نے لا افسر سے مخصوص سوالات پوچھے کہ اگر وہ کوئی ایسا مواد دکھا سکیں جسے دیکھ کر یا سن کر ایسا لگے کہ درخواست گزار قابل اعتراض سرگرمیوں میں ملوث ہے لیکن کوئی ایسا مواد عدالت کو پیش نہیں کیا جاسکا۔
مزید مشاہدہ کیا گیا کہ لا آفیسر کے پاس فوجداری مقدمے کی قسمت کے بارے میں بھی معلومات نہیں تھی، جس کے تحت انہوں نے کہا کہ غلام عباس کو فورتھ شیڈول میں شامل کیا گیا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے نوٹ کیا کہ کسی بھی فوجداری مقدمے میں اپیل کنندہ کی شمولیت بمشکل کسی شہری کو زندگی اور آزادی کے اس کے بنیادی حق سے محروم کرنے کی بنیاد ہو۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ عدالت کسی شخص کو فہرست میں شامل کرنے کے نتائج سے آگاہ ہے اور پابندیاں بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس طرح کا اقدام ’ہوا یا خواہشات کی بنیاد پر یا اتھارٹی کی خواہشات یا اندازے پر نہیں ہونا چاہیے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ عام تجربہ ہے کہ ایسی پابندیاں لگنے کے بعد انسان اپنی زندگی باعزت طریقے سے نہیں گزار پاتا، اور اپنی زندگی گزارنے کے لیے اس کا انحصار وفاقی حکومت کی صوابدید پر ہو جاتا ہے۔
مزید کہا گیا کہ فورتھ شیڈول میں شامل شخص کو اپنی نقل و حرکت محدود کرنے کے لیے بانڈ بھرنا پڑتا ہے، اور کسی خاص جگہ رہنے کے حق کے ساتھ تفریح سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ حکومت جب چاہے ایسے شخص کو دفعہ 11- ای ای ای کے تحت گرفتار کر سکتی ہے۔
مزید لکھا کہ ایسے افراد کے خلاف معلومات عموما ایس ایم ایس، واٹس ایپ میسج، سوشل میڈیا اکاؤنٹس، پوسٹر، ہینڈ آوٹس، تصاویر، کتابوں، ڈیجیٹل میٹریل سے لی جاتی ہے۔
کسی شخص کو کالعدم قرار دینے کے لیے ’معقول بنیادوں‘ کی رکن وضاحت کرتے ہوئے فیصلے میں سپریم کورٹ کے 2020 کے حکم کا حوالہ دیا گیا۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ارباب اختیار کو نام فورتھ شیڈول میں ڈالنے رکن کے لیے یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ایسے افراد کے خلاف ایک سے زائد فورمز پر معلومات میسر ہوں۔
فیصلے میں روشنی ڈالی گئی کہ اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہئے کہ وہ شخص، جو ایک بار اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث ہو، اب بھی زندہ ہے اور اسی حالت کے ساتھ رابطے میں ہے تاکہ کسی فرد کو اس کے بنیادی حقوق سے محروم نہ کیا جاسکے۔
انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 11-ای ای کے حوالے سے فیصلے میں کہا گیا کہ ریاست رکن کو یہ ظاہر کرنا چاہیے کہ جس شخص کو نوٹیفائی کیا جا رہا ہے، وہ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 6 اور 7 کے تحت کسی کیس میں ملوث ہے، یا وفاقی حکومت کی جانب سے تنظیم کی پابندی کے لیے سیکشن 11۔بی کے تحت مطلع کردہ کسی تنظیم کا عہدیدار، کارکن یا ساتھی تھا، یا ایسی تنظیم کا رکن ہے اے ٹی اے 1997 کی دفعہ 11-ڈی کے تحت زیرِ نگرانی تھا، یا وہ دہشت گردی یا فرقہ واریت میں ملوث تھا۔
یہ بتاتے ہوئے کہ مذکورہ بالا نتیجے پر پہنچنے والی معلومات کسی بھی تحریک لبیک معتبر ذریعے سے اکٹھی کی جا سکتی ہیں خواہ ملکی ہو یا غیر ملکی، لاہور ہائی کورٹ نے مشاہدہ کیا کہ فورتھ شیڈول میں کسی تحریک لبیک فرد کو شامل کرنے سے پہلے کچھ معقول بنیادیں ہونی چاہئیں اور یقیناً معقول بنیادیں معقول شبہات کے علاوہ ہیں۔
غلام عباس کے وکیل نے درخواست میں مؤقف اپنا کہ ان کے مؤکل کا کیس تحریک لبیک انسداد دہشت گردی رکن کی دفعہ 11- ای ای کے تحت لیے جانے اہل نہیں ہے کیونکہ ان کے خلاف ایسا کوئی مواد دستیاب نہیں ہے۔