کراچی (سچ خبریں)وزیراعظم شہباز شریف نے سابق وزیراعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے ہمارے مقتدر ادارے کی جانب سے جو تعاون لاڈلے کو ملا وہ ہماری کسی حکومت کو ملتا تو پاکستان راکٹ کی طرح اوپر جارہا ہوتا۔
ایوان صنعت و تجارت کراچی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ آج مجھے کراچی آنا تھا کہ پاکستان نیوی نے تقریب کا انعقاد کیا تھا جہاں پر ترکی اور پاکستان کے تعاون سے ایک جنگی جہاز لانچ کیا جانا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ کراچی میں آپ لوگوں کی خدمت میں حاضر اور موجودہ صنعتی، معاشی اور مالی صورت حال ہے اس بارے میں آپ کی رائے جاننا چاہتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ، مفتاح اسمٰعیل اور کراچی چیمبر کا شکرگزار ہوں۔
وزیراعظم نے کہا کہ میں یہاں سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرنے نہیں آیا اور نہ اس کے کوئی فائدہ ہے، جو اصل مسائل ہیں اس کا حل جاننے آیا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈالر اگست 2018 میں 115 روپے کا تھا جب عدم اعتماد کے ذریعے جب ہماری متحدہ حکومت بنی اور 11 اپریل کو میں نے حلف لیا تو ڈالر 189 پر تھا جو 115 روپے سے سفر کرتا ہوا 189 پر آیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ جو 60 سے 65 روپے کی اڑان تھی اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں تھا البتہ حلف لیا تو 8 روپے ڈالر سستا ہوا اور اسٹاک مارکیٹ اوپر گئی۔
شہباز شریف نے کہا کہ پچھلی حکومت کو پتہ چلا کہ عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوجائے گی تو کسی چلنتر آدمی نے مشورہ دیا کہ پیٹرول اور تیل کی قیمتیں سستی کردیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں تاریخ کی بلند ترین قیمتیں ہیں اور پاکستان قرضوں پر زندگی بسر کر رہا ہے، حقیقت یہی ہے اور پھر یہ کہیں یہ جال بچھایا جا رہا تھا کہ عدم اعتماد کامیاب ہوجائے تو اگلی حکومت اس جال میں پھنس جائے گی تو یہ چال تھی۔
انہوں نے کہا کہ ہماری سیاسی مجبوری بھی تھی کہ سرمنڈھاتے ہی اولے پڑے، جنہوں نے ساڑھے 3 سال ایک دھیلے کا عام آدمی کو ریلیف نہیں دیا اور یاد نہیں آیا اور قرضے ہی قرضے لیتے رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کوئی ایک منصوبہ بتائیں جس کا معاش، زراعت، سماج سے تعلق ہو، پچھلی حکومت کسی منصوبے کو سنجیدگی سے کیا اور اس کا پھل کھانے کا وقت ہوا ہو۔
انہوں نے کہا کہ 2018 سے 30 مارچ 2022 تک قرضوں میں 80 فیصد اضافہ ہوا، اس وقت تو سیاسی افراتفری نہیں تھی، اس وقت لاڈلی اور لاڈلی حکومت کو ہمارے مقتدر ادارے نے وہ تعاون کیا جو پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں نہ کسی کو ملی اور نہ آئندہ کسی کو ملے گی، یہ بلاخوف و تردید کہنا چاہتا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ بڑی انکساری سے کہتا ہوں جو تعاون اس لاڈلے کو ملے تھی اگر ہماری کسی حکومت کو اس کا 30 فیصد بھی ملا ہوتا تو بڑی عاجزی سے کہتا ہوں کہ پاکستان راکٹ کی طرح اوپر جا رہا ہوتا، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ میں کسی خیال دنیا میں لے کر نہیں جارہا بلکہ سب کچھ آپ کے سامنے ہے، سی پیک آیا، پورٹ قاسم اور پنجاب میں منصوبے لگے، پنجاب اور یہاں بجلی کے منصوبے لگے۔
ان کا کہنا تھا کہ اربوں ڈالر کے 4 منصوبے لگائے گئے، اتنی کم مدت میں سستے اور جدید ترین مشینری کے منصوبے پاکستان ہی نہیں دنیا کی تاریخ میں نہیں لگے، منصوبے لگے اور لوڈ شیڈنگ ختم ہوئی لیکن اب لوڈ شیڈنگ کیوں شروع ہوئی۔
لوڈ شیڈنگ پر بات کرتے ہوئے انہوں نے سوال کیا کہ کیا یہ سیاسی افراتفری کا نتیجہ ہے، یا بدترین نالائقی، منصوبہ بندی کی کمی، کم تجربہ کاری اور کرپشن کا نتیجہ ہے، اس کا آج فیصلہ کریں اور اس کا فیصلہ ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ یہ جو 10، 12 روپے ڈالر بڑھا ہے، اس کی کئی تاویلیں ہوسکتی ہیں لیکن میں پوچھتا ہوں کہ لوڈ شیڈنگ جو ختم ہوئی تھی دوبارہ کیوں شروع ہوئی اور 22 کھرب کا قرضہ کہاں گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ چبھتے ہوئے سوالات ہیں، جس کا قوم جواب مانگتی ہے اور جواب ملنا چاہیے، چینی برآمد کریں، لیکن غریب قوم کو سبسڈی دیں۔
انہوں نے کہا کہ گندم پہلے برآمد ہوتی تھی اب درآمد ہونے لگی کیا یہ سیاسی افراتفری کا نتیجہ تھا، ایل این جی کی قیمت مارکیٹ میں 3 ڈالر فی یونٹ تھی نہیں خریدا لیکن مہنگا ترین تیل خریدا اور جب ایل این جی 60 ڈالر پر پہنچ گیا تو پھر سودے کر رہے ہیں تو کیا یہ سیاسی افراتفری کا نتیجہ تھا، خدارا اس کا تحمل، برداشت اور ایمان داری سے تجزیہ کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر مجھے سے غلطی ہوئی تو معافی مانگنی چاہیے، کبھی غلط ہوا ہے تو اس کا ازالہ ہونا چاہیے لیکن ساڑھے تین برسوں کی بدترین حکومت کے بعد غداری اور وفاداری کے سرٹیفیکیٹ بانٹے جائیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ یہ پاکستان اس لیے بنا تھا کہ آپ ملک کو کھوکھلا کردیں، تباہ و برباد کردیں اور پھر کہیں غداری ہوئی، یہ غدار اور یہ وفادار ہیں، اس بحث میں گئے تو بات دور تلک جائے گی۔