اسلام آباد: (سچ خبریں) وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے انکشاف کیا ہے کہ موجودہ حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سائفر پیش نہیں گیا تھا بلکہ سابق سفارتکار نے اجلاس کو صرف بریفنگ دی تھی۔
قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے پی ٹی آئی کی حکومت جانے کے بعد قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس وزیراعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت ہوا، جس میں اعادہ کیا گیا کہ عمران خان کے خلاف کوئی بیرونی سازش نہیں ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے کو موصول ہونے والے ٹیلی گرام (سائفر) پر قومی سلامتی کے اجلاس میں تبادلہ خیال کیا گیا، امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر نے ٹیلی گرام کے سیاق و سباق اور متن کے حوالے سے بریف کیا۔
تاہم وزیر داخلہ نے وضاحت کی کہ سائفر کو قومی سلامتی کے اجلاس میں پیش نہیں کیا گیا تھا۔
رانا ثنا اللہ نے بتایا کہ حکومت سنبھالنے کے بعد ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ایسا کوئی سائفر پیش نہیں کیا گیا۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ امریکا میں اُس وقت کے پاکستانی سفارتکار اسد مجید خان کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے اور انہوں نے سائفر میں کسی بھی سازش کو مسترد کر دیا تھا۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ سائفر سے متعلق ہل چل ملک کی خارجہ پالیسی کو نقصان پہنچانے کے لیے پھیلائی گئی۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ سائفر کی ماسٹر کاپی لازماً دفتر خارجہ میں ہونی چاہیے جبکہ اس کی کاپیاں صدر، چیف جسٹس آف پاکستان، قومی اسمبلی کے اسپیکر اور وزیراعظم ہاؤس میں بھیجی گئیں، انہوں نے الزام عائد کیا کہ عمران خان نے وزیراعظم ہاؤس کی کاپی لے گئے۔
پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ حکومت اس معاملے پر مذاکرات کے لیے تیار ہے کیونکہ سیاسی جماعتیں اسی طرح کرتی ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر عمران خان اسلام آباد میں داخل ہونے اور امن و امان کی صورتحال کو خراب کرنے کی کوشش کریں گے تو اس کے لیے ہم نے حکمت عملی مرتب کر لی ہے، ان کا لانگ مارچ کرنے کا اقدام غیر دانشمندانہ ہو گیا کیونکہ اس صورتحال میں وہ گرفتاری سے نہیں بچ سکیں گے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے تاحیات نااہلی کے آرٹیکل 62 ون ایف کو ’کالا قانون‘ کہنے کے حوالے سے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ آرٹیکل کو کالعدم قرار دے دینا چاہیے۔
خیال رہے کہ رواں برس مارچ میں ایک جلسے کے دوران اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے اپنی جیب سے خط نکال کر دعویٰ کیا تھا کہ ان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ان کی بیرونی پالیسی کے سبب ’غیر ملکی سازش‘ کا نتیجہ تھی اور انہیں اقتدار سے ہٹانے کے لیے بیرون ملک سے فنڈز بھیجے گئے۔
اگرچہ انہوں نے ابتدائی طور پر دھمکی آمیز خط کے بارے میں کوئی خاص تفصیلات فراہم نہیں کی تھیں لیکن اس کے بعد ناقدین کی جانب سے ان کے دعوے پر شک کرنے کی وجہ سے تھوڑی تفصیلات دیں۔
سابق حکومت نے ابتدائی طور پر اس خط کو چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ شیئر کرنے کی پیشکش کی، لیکن بعد میں وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کے ارکان کو خط کے مندرجات سے بھی آگاہ کیا۔
خفیہ دستاویزات کے افشا ہونے پر قانونی پابندی کے پیش نظر صحافیوں کے ایک گروپ کو وزیراعظم کے ساتھ بات چیت کے دوران کابینہ کے اجلاس کے نکات فراہم کیے گئے تھے۔
اس ملاقات میں کسی غیر ملکی حکومت کا نام نہیں لیا گیا لیکن میڈیا والوں کو بتایا گیا کہ میزبان ملک کے ایک سینئر عہدیدار نے پاکستانی سفیر کو کہا تھا کہ انہیں وزیر اعظم عمران خان کی خارجہ پالیسی، خاص طور پر ان کے دورہ روس اور یوکرین جنگ سے متعلق مؤقف پر مسائل ہیں۔ مبینہ طور پر یہ سفارتی کیبل 7 مارچ کو اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے اور اس پر ووٹنگ کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے سے ایک روز قبل بھیجی گئی تھی۔
دریں اثنا علیحدہ طور پر یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ یہ سفارتی کیبل امریکا میں پاکستان کے اُس وقت کے سفیر اسد مجید نے کے معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور، ڈونلڈ لو سے ملاقات کی بنیاد پر بھیجی تھی۔
بعد ازاں پی ٹی آئی حکومت نے اس سفارتی کیبل کو اپنا اقتدار ختم کرنے کی سازش قرار دیتے ہوئے اس پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بھی بلایا تھا۔
اجلاس میں مراسلے کو پاکستان کے معاملات میں ’کھلی مداخلت‘ قرار دیتے ہوئے اس کا سفارتی طور پر جواب دینے کا عزم ظاہر کیا گیا تھا۔
حکومت کی تبدیلی کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی کا ایک اور اجلاس ہوا تھا جس کے اعلامیے میں کہا گیا کہ قومی سلامتی کمیٹی کو اعلیٰ ترین سیکیورٹی ایجنسیوں نے دوبارہ مطلع کیا ہے کہ انہیں کسی سازش کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔
اجلاس کے دوران قومی سلامتی کمیٹی نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ کوئی غیر ملکی سازش نہیں ہوئی ہے۔