اسلام آباد:(سچ خبریں) آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ نزدیک آتے ہی نئے آرمی چیف کے انتخاب کے حوالے سے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز ایسے ممکنہ آپشنز پر غور کرنے کے لیے سرگرم نظر آرہے ہیں جو ان کے خیال میں ان کے مفادات کا تحفظ کریں گے۔
سیاسی ذرائع کا کہنا ہے کہ راولپنڈی، لندن اور لاہور میں اس حوالے سے مشاورت بھرپور انداز میں جاری ہے اور آئندہ چند روز انتہائی اہم ہیں۔ ان میں سب سے اہم ملاقات راولپنڈی میں ہوئی جہاں فوج کے کور کمانڈرز نے جنرل ہیڈ کوارٹرز میں ملاقات کی، اجلاس کی صدارت جنرل قمر جاوید باجوہ نے کی۔
جی ایچ کیو میں اس سیشن کا انعقاد ہر ماہ ہوتا ہے جہاں اعلیٰ افسران اندرونی اور بیرونی سلامتی کی صورتحال کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ امور پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔
پاک فوج کی کمان میں آنے والی تبدیلی، ادارے کے اندر اور باہر اس سے متعلقہ بحثیں اور ملک میں کشیدہ سیاسی ماحول پر گفتگو نے اس اجلاس کو انتہائی اہم بنا دیا۔
اس حوالے سے آئی ایس پی آر کی جانب سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا اور شدید قیاس آرائیوں کے باوجود اس معاملے پر خاموشی اختیار کرلی گئی ہے۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے کور کمانڈرز کانفرنس کے حوالے سے کوئی پریس ریلیز جاری نہ کرنا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے، آنے والے روز میں پیش آنے والے واقعات ہی یہ واضح کر سکتے ہیں کہ اس کانفرنس میں کیا فیصلے کیے گئے۔
گزشتہ روز جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورۂ پشاور کو ان کی جانب سے فارمیشنز کے الوداعی دوروں کا حصہ سمجھا جا رہا ہے جہاں انہوں نے چند گھنٹے قیام کیا اور پشاور کور کے افسران اور جوانوں سے خطاب کیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ 29 نومبر کو عہدہ چھوڑنے کے فیصلے پر قائم ہیں۔
کچھ ریٹائرڈ افسران کے مطابق گزشتہ روز ہونے والی کانفرنس میں جنرل قمر جاوید باجوہ کے بعد نئے آرمی چیف کے انتخاب کے لیے ادارہ جاتی عمل پر غور کے علاوہ کور کمانڈروں نے ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے کچھ افسران پر بے جا تنقید پر تبادلہ خیال کیا۔
کہا جارہا ہے کہ کمانڈ میں تبدیلی سے قبل فوج پی ٹی آئی کے ساتھ کشیدگی میں کمی چاہتی ہے تاکہ نئے سربراہ ایسے وقت میں عہدہ سنبھالیں جب بیشتر معاملات طے پائے جا چکے ہوں۔
لہٰذا دونوں جانب سے دباؤ ہے کہ آئندہ انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے کوئی معاہدہ طے پا جائے تاکہ پی ٹی آئی کا لانگ مارچ ختم ہو اور سیاسی جماعتیں دیگر اہم مسائل پر توجہ دینے کے قابل ہو سکیں۔
صدر عارف علوی کے بارے میں بھی کہا جارہا ہے کہ وہ سیاسی تعطل کے خاتمے کی اس کوشش میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، انہوں نے حال ہی میں عسکری قیادت سے ملاقات کی اور ان کا پیغام انہوں نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان تک بھی پہنچایا۔
دوسری جانب وزیر اعظم شہباز شریف شرم الشیخ سے روانہ ہوئے تو انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں بتایا کہ وہ پاکستان روانہ ہو رہے ہیں لیکن پھر انہوں نے اپنا منصوبہ تبدیل کرلیا اور اپنے بڑے بھائی نواز شریف سے ملنے کے لیے کمرشل فلائٹ لے کر لندن روانہ ہوگئے۔ وہ صرف اپنے ذاتی عملے کو اپنے ہمراہ لندن لے کر گئے ہیں جبکہ ان کے ساتھ سفر کرنے والے دیگر وزرا و مشیر پاکستان روانہ ہوگئے۔
مسلم لیگ (ن) کے ذرائع نے بتایا کہ ’وزیر اعظم کے دورہ لندن سے کچھ ایسے معاملات طے کرنے میں مدد مل سکتی ہے جو کچھ عرصے سے زیر التوا ہیں اور اس حوالے سے نواز شریف اور خاندان کے دیگر افراد سے بالمشافہ ملاقات ضروری تھی‘۔
ذرائع کے مطابق ان معاملات میں نئے آرمی چیف کی تعیناتی، آئندہ انتخابات سے جڑے معاملات، پی ٹی آئی سے نمٹنے کی حکمت عملی اور کھوئی ہوئی سیاسی حمایت دوبارہ حاصل کرنا شامل ہیں۔
کہا جارہا ہے کہ نواز شریف جھکنے کو تیار نہیں ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ الیکشن کی حتمی تاریخ نہ ہونے کی صورت میں عمران خان کی فوج کے ساتھ مسلسل محاذ آرائی پی ٹی آئی کو سیاسی طور پر نقصان پہنچانے کا سبب بنے گی۔ تاہم سیاسی ذرائع کے مطابق شریف برادران اس حوالے سے آئندہ 2 روز میں اپنے اتحادیوں سے مشاورت کریں گے۔
دریں اثنا چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے لاہور میں اپنے اعلیٰ معتمدوں سے ملاقات کی اور فوج کے ساتھ بیک چینل روابط پر بات چیت کی۔
پی ٹی آئی ذرائع نے بتایا کہ عمران خان اس بات پر بضد ہیں کہ وہ کسی بھی چیز پر سمجھوتہ نہیں کر سکتے اور گیند اب حکومت کے کورٹ میں ہے۔