اسلام آباد:(سچ خبریں) وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے دو روز قبل دیے گئے اپنے بیان پر وضاحت دیتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کو قتل کی کوئی دھمکی نہیں دی، سیاسی وجود کی بات کی۔
واضح رہے کہ 26 مارچ کو رانا ثنا اللہ نے کہا تھا کہ عمران خان نے سیاست کو اس اسٹیج پر لاکر کھڑا کردیا ہے جہاں اب یا تو وہ رہیں گے یا ہم، اگر ہم سمجھیں گے کہ وجود کی نفی ہو رہی ہے تو ہر حد تک جائیں گے۔
نجی نیوز چینل ’پی این این‘ کو دیے گئے انٹرویو میں وفاقی وزیر داخلہ کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان سیاست میں جمہوری روایات، پرامن سیاسی ماحول پر یقین نہیں کرتے بلکہ انہوں نے سیاست کو دشمنی بنا دیا ہے اوراب وہ ہمیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں جبکہ ہم ان کو اپنا سیاسی مخالف سمجھتے تھے لیکن اب بات یہاں تک آگئی ہے کہ وہ بھی ہمارا دشمن ہے۔
آج گوجرانوالہ میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو رانا ثنا اللہ نے کہا کہ میں نے عمران خان کو قتل کی کوئی دھمکی نہیں دی میں نے سیاسی وجود کی بات کی ہے، جو بھی برائی ہے وہ ختم عمران خان پر جا کر ہی ہوتی ہے، وزیر آباد واقعے کی جھوٹی ایف آئی آر ہمارے خلاف درج کروانے میں کوشیں کی۔
وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ عمران خان کے خلاف ابھی قانون حرکت میں نہیں آیا، وہ جو زبان استعمال کرتے ہیں اس پر قانون کے مطابق عمل ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی سے اب کافی کچھ نکلے گا، اتنا کچھ نکلے گا کہ وہاں بس فتنہ ہی رہ جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے خلاف جتنی بھی ایف آئی آر ہیں کوئی ایک ایف آئی آر نکال دیں جو کام انھوں نے نہ کیا ہو۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ یہ پروپیگنڈا غلط ہے کہ عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے، جس دن عمران خان نے جیل بھرو تحریک شروع کی اس کی مقبولیت کہاں تھی، عمرانی فتنے کی قوم کو شناخت کرنا چاہیے، ووٹ کی طاقت سے عمران خان کا سیاسی وجود پاکستان سے مائنس ہونا چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ معیشت کی جو بری حالت ہے وہ اسی عمران خان کی وجہ سے ہوئی ہے، جو معاہدہ عمران خان نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے کیا ہے اس کو پورا کرتے کرتے ہم کہاں تک پہنچ گئے ہیں۔
وزیر داخلہ کا مزید کہنا تھا کہ ہم عدالت کا احترام کرنے والے لوگ ہیں، یہ بے بنیاد مقدمہ ہے جو پرویز الٰہی کے دور میں درج کیا گیا، پولیس نے اس مقدمہ کو خراج کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ عدالت کے احترام میں عدالت پیش ہوا ہوں، ایک صاحب عدالت میں پیش ہونے کے لیے اپنے ساتھ اتنا بڑا لشکر لاتے رہے کہ عدالت میں کام کرنا محال ہو گیا، اسلام آباد میں جو مناظر دیکھنے میں آئے وہ قابل شرم ہیں۔
رانا ثنا اللہ نے مزید کہا کہ ملک کا آئین کہتا ہے کہ ملک میں انتخابات اکٹھے اور نگران سیٹ اپ میں ہونے چاہئیں، اگر 2 اسمبلیوں کے انتخابات پہلے کروا دیتے تو وہ ملک میں انارکی لے کر آئیں گے۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ جج کے فیصلے تقسیم نہیں ہوتے ان کی رائے ہوتی ہے، جو فیصلہ چار ججز نے دیا ہے اس پر عملدرآمد ہونا چاہیے، ان کا کہنا تھا کہ مریم نواز کبھی بھی کوئی جھتہ لے کر عدالت پیش نہیں ہوئیں۔
رانا ثنا اللہ نے مزید کہا کہ انہوں نے باقاعدہ مہم چلائی کہ سب اکٹھے ہو کر عدالتوں پر حملہ اور ہو، عمران خان جیل جائے گا یا نہیں یہ عدالتوں کا کام ہے۔
رانا ثنا اللہ نے بتایا کہ ارشد شریف کی شہادت کے حوالے سے جو ہماری ٹیم وہاں گئی تھی کہ شناخت کی غلطی کی وجہ سے یہ واقعہ ہوا، میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ارشد شریف کو قتل کیا گیا۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ عدالت کی جانب سے دی گئی مہلت پر عمل کرتے ہوئے آج گوجرانوالہ کی انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش ہوگئے جس کے بعد ان کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کردیے گئے۔
انسداد دہشت گردی عدالت کے جج رانا زاہد اقبال نے مقدمے کی سماعت کی جس کے دوران رانا ثنااللہ اور ان کی لیگل ٹیم نے عدالت میں اپنا مؤقف پیش کیا۔
رانا ثنا اللہ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وہ عدالت کی جانب سے طلب کیے جانے کے باوجود حکومتی مصروفیات کی وجہ سے گزشتہ پیشی پر نہیں آسکے تھے۔
عدالت نے ان کا عذر جاننے کے بعد ان کے خلاف جاری ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری منسوخ کردیے اور ساتھ 5 لاکھ روپے کے مچلکے بھی جمع کرانے کا حکم دیا۔
بعدازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت 28 اپریل تک ملتوی کردی۔ یاد رہے کہ 7 مارچ کو عدالت نے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست خارج کرتے ہوئے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔
فیصلے میں عدالت نے پولیس کو یہ بھی حکم دیا تھا کہ ملزم کو گرفتار کر کے 28 مارچ کو عدالت میں پیش کیا جائےرانا ثنااللہ کے خلاف درج مقدمہ
خیال رہے کہ حکومت پنجاب نے 15 اپریل 2021 اور 29 جنوری 2022 کو اپنی تقاریر کے دوران عدلیہ اور سرکاری افسران کو دھمکیاں دینے پر وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کی نقل کے مطابق پنجاب کے شہری شیخ شہکاز عالم کی شکایت پر وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کے خلاف انسداد دہشت گردی کے سیکشن 7 (دہشت گردی کی سرگرمیوں پر سزا) جبکہ ضابطہ فوجداری کے سیکشن 353 (سرکاری ملازم کو اس کے فرض کی ادائیگی سے روکنے کے لیے حملہ یا مجرمانہ عمل کرنا)، 186 (سرکاری ملازمین کے سرکاری کاموں میں رکاوٹ ڈالنا)، 189 (سرکاری ملازم کو زخمی کرنے کی دھمکی دینا) اور 506 (مجرمانہ دھمکی کی سزا) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
شکایت کنندہ نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ 15 اپریل 2021 اور 29 جنوری 2022 کو اپنی تقاریر میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے عدلیہ کو اپنا فرض ادا کرنے سے روکنے اور پنجاب پولیس کے افسران کے بچوں کو مارنے کی دھمکی دی تھی۔
ایف آئی آر میں رانا ثنااللہ کا بیان بھی شامل کیا گیا جو ’جیو ٹی وی‘ کے پروگرام ’نیا پاکستان‘ پر نشر ہوا تھا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ رانا ثنااللہ کے بیان کا مقصد عدلیہ، چیف سیکریٹری پنجاب، کمشنر اور ملک کے عوام میں خوف و ہراس پھیلانا تھا، ان کا مقصد سرکاری ملازمین کو اپنے فرائض کی ادائیگی اور قانونی ذمہ داریوں کو پورا کرنے سے روکنا تھا۔
درخواست گزار نے مزید کہا تھا کہ وفاقی وزیر کی تقاریر نے عدلیہ، بیوروکریسی، پولیس، انتظامیہ اور قوم میں خوف و ہراس پھیلایا اور استدعا کی گئی ہے کہ رانا ثنااللہ کے بیان کی تحقیقات کی جائیں اور انہیں سزا دی جائے تاکہ سرکاری اہلکاروں کے خلاف بولنے والے دوسرے شہریوں کے لیے ایک مثال بن سکے۔